کیا کیجریوال سرکار کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے

دہلی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ نتائج تقریباًاسی لائن پر آئے ہیں جیسا کہ امید کی جارہی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جیت کی ہیٹ ٹرک لگائی ہے۔ تینوں کارپوریشنوں پر اپنا اقتدار برقرار رکھا ہے وہیں اس چناؤ میں عاپ اور کانگریس کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایگزٹ پول اور آخری نتیجوں میں اتنا فرق ضرور رہا کہ ایگزٹ پول میں بھاجپا کو 200 سے زیادہ سیٹوں کا اندازہ لگایا تھا جوگھٹ کر 181 تک رہی ہیں۔ وہیں عاپ کو 48 اور کانگریس کو 30 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔بیشک یہ چناؤ تو چھوٹے تھے لیکن چناؤ پر داؤں بڑے تھے۔ تینوں میونسپل کارپوریشنوں کے چناؤ میں اس مرتبہ ایک الگ سیاست کا ماحول بنا۔ بیشک یہ چناؤ کونسلروں کا تھا لیکن اس چھوٹے چناؤ پر بڑے بڑے دھرندروں کی ساکھ داؤ پر لگی تھی۔ اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں پچھلے دنوں ہوئے چناؤ کے بعد اب میونسپل کارپوریشن کے چناؤ نتیجے ثابت کرتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کی آندھی اب بھی چل رہی ہے۔ وہیں یہ نتیجے بھاری اکثریت کے ساتھ دو سال پہلے اقتدار میں قابض ہوئی اروند کیجریوال اور ان کی سرکار کی کارگزاری پر ایک طرح سے ریفرنڈم ہیں۔ کانگریس کے گرتے گراف پر کوئی روک نہیں لگی اور وہ اوندھے منہ گری ہے۔سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اروند کیجریوال اور ان کی پارٹی کی کھوتی زمین دو سال پہلے بھاری اکثریت حاصل کرنے والے کیجریوال کی ہار کی یہ ہیٹ ٹرک ہے۔ عاپ کے لئے تو اب سنکٹ ہی سنکٹ ہے وہ دہلی اسمبلی چناؤ کے اپنی کارکردگی کے آس پاس بھی نہیں ٹھہری۔ اسمبلی چناؤ میں 70 میں سے67 سیٹیں جیتنے والی عاپ 272 وارڈوں میں سے 90 فیصدی سے زیادہ میں مات کھا چکی ہے لیکن اسے صرف 48 وارڈ ہی ملے ہیں۔ ای وی ایم مشینوں کی خرابی کا رونا رو کر جنتا کا دل نہیں جیتا جاسکتا۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کو ایم سی ڈی چناؤ نتیجوں کو قبول کرنا ہوگا۔ اس بار کیجریوال چاہ کر بھی نتیجے کے لئے ای وی ایم کو قصوروار نہیں ٹھہرا پائیں گے کیونکہ اس بار ای وی ایم پر الزام لگایا تو اسمبلی میں ان کی تعداد بھی شبہ کے گھرے میں آجائے گی۔ ریاستی چناؤ کمیشن سے ملی جانکاری کے مطابق اس چناؤ میں قریب 30 ہزار ای وی ایم مشینوں کا استعمال ہوا۔ ان میں سے قریب 8 ہزار مشینیں راجستھان میونسپل کارپوریشن سے لائی گئیں تھیں باقی مشینیں وہی ہیں جو دہلی اسمبلی چناؤ 2015 میں استعمال ہوئی تھیں، ایسے میں اگر کیجریوال ان مشینوں میں گڑ بڑ یا ہیک ہونے کا الزام لگائیں گے تو سال2015 میں انہیں ملی غیر متوقعہ جیت بھی شبہ کے گھیرے میں آجائے گی۔ ان کے لئے ٹھیک ویسی حالت پیدا ہوجائے گی کہ ایک انگلی دوسرے پر اٹھانے سے چار انگلیاں خود پر اٹھ جائیں گی۔ پانی معاف، بجلی کا آدھا بل کے بعد ہاؤس ٹیکس ختم کرنے کا لبھاونا لالچ دینے والی عاپ کو اگر اس قدر دہلی کا ووٹر کاٹ رہا ہے تو یہ فطری طور سے کیجریوال کے لئے تشویش کی بات ہونی چاہئے۔ پہلے پنجاب اور گووا پھردہلی اسمبلی چناؤ کی راجوری گارڈن سیٹ اور اب دہلی میونسپل کارپوریشن میں ہار کی ہیٹ ٹرک لگانے کے لئے خود اروند کیجریوال ذمہ دار ہیں۔ دہلی میں سرکار بنانے کے ساتھ ہی عاپ سرکار کے وزرا پر کرپشن اور طرح طرح کے الزام لگنے لگے ہیں۔ سرکار کا کوئی وزیر فرضی ڈگری میں تو کوئی سیکس سی ڈی میں پھنسا ۔ کیجریوال پی ایم مودی پر شخصی الزام لگانے و حملہ کرنے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتے۔ کئی بار تو حد پار کرتے ہوئے کیجریوال نے مودی پر قابل اعتراض تبصرہ بھی کردیا۔ دہلی کی جنتا نے کیجریوال کو دہلی کا وزیر اعلی چنا لیکن ہٹلری اسٹائل میں یہ کبھی گووا تو کبھی گجرات ،تو کبھی پنجاب میں سرکار بنانے کے خواب دیکھنے لگے۔ پارٹی میں جو کوئی بھی تنقید کرتا ہے اسے ہٹلری اسٹائل میں پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔ دہلی میں اگر آج اسمبلی چناؤ ہوجائے تو انڈیا ٹوڈے ایکسس مائی انڈیا کے ایک سروے میں دو تہائی اعدادو شمار تک نہیں پہنچے گی۔ دہلی ایم سی ڈی چناؤ میں بی جے پی کی شاندار جیت کے ساتھ ہی کیجریوال سرکار کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے کیونکہ عام آدمی پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال کے خلاف زبردست ناراضگی اور ممبران اسمبلی کا ایک بڑا گروپ بغاوت کی تیاری میں سرگرم ہے۔ اس کی جھلک چناؤ سے پہلے بوانا کے ممبر اسمبلی وید پرکاش دکھا چکے ہیں۔ حالات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ خود کیجریوال کے اوپر استعفے کا زبردست دباؤ ہے ۔ ان کے طریقہ کار اور لگاتار مل رہی ہار نے ممبران اسمبلی کا حوصلہ بری طرح سے توڑدیا ہے۔ ان ممبران اسمبلی کو معلوم ہے کہ اب ان کے لئے عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ پر چناؤ جیتنا آسان نہیں ہوگا اوپر سے لالچ کے عہدہ معاملے پر درجنوں ممبران کی ممبر شپ ختم ہونے کا خطرہ بنا ہوا ہے۔ سیاسی پنڈت مان رہے ہیں کہ دہلی اسمبلی چناؤ کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج سے بھاجپا ہائی کمان اور جیتے کونسلروں پربڑی ذمہ داری آگئی ہے۔ پچھلے 10 سال سے کرپشن سے پاک کارپوریشن میں بیشک پارٹی نے زیادہ تر موجودہ ممبران کو ہٹا کر نئے چہروں کو ٹکٹ دیا لیکن اب یہ وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امت شاہ اور پردیش پردھان منوج تیواری کی اب ذمہ داری بنتی ہے کہ ایم سی ڈی میں کرپشن سے پاک اور صاف ستھرا انتظامیہ دیں۔ اس بار بھاجپا کونسلروں کی راہ اتنی آسان نہیں ہوگی۔ ان کی ہر سرگرمی پر پردیش لیڈر شپ کی کڑی نظر ہوگی۔ ان کے کام کاج اور برتاؤ کے بارے میں لگاتار فیڈ بیک بھی لیا جائے گا۔ ایم سی ڈی میں کہاں کہاں خامیاں ہیں اور انہیں کیسے دور کیا جائے اب اس کی ذمہ داری بھاجپا لیڈر شپ پر آگئی ہے۔ ہوسکے تو ہاؤس ٹیکس تو ختم کیا جائے یا کم تو ضرور کیا جائے اور اس کے ہونے والے محصول کے نقصان کو کرپشن کم کرکے پورا کیا جائے۔ یہاںیہ یادرہے کہ کیجریوال نے بجلی ۔ پانی کے بل آدھے کردئے تھے اگر کیجریوال کرسکتا ہے تو آپ کیوں نہیں کرسکتے۔ دہلی اسمبلی چناؤ ڈھائی سال میں ہونے ہیں۔ میونسپل کارپوریشنوں میں اگر بھاجپا اچھا انتظامیہ دیتی ہے تو اس کا سیدھا اثر اسمبلی چناؤ پر پڑے گا۔ افسر شاہی پر گہری نظر اور بہتری انتہائی ضروری ہے۔ میونسپل کارپوریشن میں افسران کرپشن کی جڑ ہیں۔ ماحول بہت اچھا ہے دیکھنا یہ ہے کہ یوگی سرکار کی طرح دہلی ایم سی ڈی میں پارٹی ایکشن کرکے دکھا سکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟