بال بال بچی نواز شریف کی کرسی

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اپریل مہینے کے شکار بننے سے بال بال بچ گئے ہیں۔ دراصل اسی مہینے ماضی گزشتہ میں پاکستانی حکمرانوں کا تختہ پلٹ ہوا ہے۔ انہیں عمر قید کی سزا ملی ہے اور پھانسی پر لٹکایا گیا ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کی جانب سے3-2 سے دئے گئے مخلوط فیصلہ کے سبب نواز شریف اپنی کرسی بچانے میں فی الحال جمعرات کو کامیاب رہے۔ بتادیں کہ پاکستانی سپریم کورٹ پنامہ پیپرس لیک معاملہ کے کیس کی سماعت کررہی تھی۔ پچھلے سال امریکہ میں واقع تفتیشی صحافیوں کو بین الاقوامی فیڈریشن نے پنامہ پیپرس کے نام سے لیک ہوئے دستاویز دنیا سے شیئرکردئے تھے۔ناجائز سرمایہ کاروں کی فہرست میں شریف اور ان کے خاندان کا نام بھی شام ہے۔ کرپشن کے چلتے شریف کو پارلیمنٹ ممبر شپ سے نا اہل قرار دینے والی عرضی پر پانچ نفری سپریم کورٹ کی ڈویژن بنچ کے تین ممبران الزامات کی جانچ کرانے کے حق میں تھے جبکہ دو جج شریف کو نا اہل قرار دینے کے حق میں تھے۔ اکثریت کی بنیاد پر آئے 590 صفحات کے فیصلے کے الزامات کی جانچ کے لئے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ دیا گیا جس کے سامنے نواز شریف اور ان کے دو بیٹے حسن اور حسین کو پیش ہونا ہوگا۔ اس جانچ دل میں فیڈریشن انویسٹیگیشن ایجنسی ،نیشنل اکاؤنٹی بلٹی بیورو، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن اور ملٹری انٹیلی جنس کے حکام ہوں گے۔ جے آئی ٹی کو ہر دو ہفتے کی جانچ کی پیشرفت رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنی ہوگی اور 7 دنوں میں فائنل رپورٹ دینی ہوگی۔ دلچسپ ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اسی مہینے آیا ہے جس مہینے اب سے پہلے شریف کو 2000ء میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور ان کی سرکار 1993ء میں برخاست کردی گئی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی سرکار کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے مبینہ کرپشن کو لیکر اپریل 1993ء میں برخاست کردیاتھا۔ اس کے بعد 6 اپریل 2000ء کو نام نہاد جہاز اغوا معاملہ میں ایک عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ حالانکہ دوسرے پردھان منتریوں کے لئے بھی اپریل کا مہینہ برا رہا ہے۔ 4 اپریل 1979ء کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک بڑے نیتا کے قتل کی مجرمانہ سازش رچنے کو لیکر پھانسی کے پھندے پر لٹکادیاگیا تھا۔ اس کے کئی برس بعد 26 اپریل 2012ء کو اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت کے ایک حکم کی خلاف ورزی کا قصوروار پایا گیا۔ اسی دن گیلانی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کو فی الحال راحت ضرور مل گئی ہے۔ ان کی اتھارٹی ضرور کم ہوگی، پاکستان میں اب فوج اور زیادہ حاوی ہو جائے گی۔ اس وجہ سے بھارت ۔ پاکستان کے رشتوں میں کڑواہٹ اور بڑھ سکتی ہے۔ حالانکہ دونوں دیشوں کے رشتوں میں پہلے ہی کافی کشیدگی ہے کچھ حد تک یہ رشتے کلبھوشن جادھو کے مستقبل پر ٹکے ہوئے ہیں کیونکہ نواز شریف پہلے سے اور زیادہ کمزور ہوں گے اس لئے فوج کا ان کی سرکار پر اور حاوی ہونا فطری ہے۔ پنامہ پیپرس معاملہ میں سپریم کورٹ کا حکم نواز شریف کو دو طرح سے متاثر کرتا ہے کورٹ نے شریف کو گدی سے فوراً ہٹانے لائق ثبوت نہیں مانیں ہیں۔ حالانکہ کہیں کچھ ٹھیک ٹھاک گڑ بڑ پہلی نظر میں دیکھنے کو ملی ہے۔ جانچ ٹیم کی تشکیل سے نواز شریف سیاسی اور اخلاقی دونوں ہی سطحوں پر کمزور پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لئے عمران خان اور دیگر نیتاؤں نے ان کے استعفیٰ کی مانگ کردی ہے۔ آنے والے دنوں میں نواز شریف اور کمزور ہونے سے اب وہ فوج کے رحم و کرم پر ہیں۔ فوج اس نئے واقعہ کا پورا فائدہ اٹھائے گی اور منمانی اور کرسکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟