کیا کشمیر میں بھاجپا۔ پی ڈی پی اتحاد فیل ہو گیا
کشمیروادی میں قانون و نظم کے حالات دھماکہ خیز ہوتے جارہے ہیں۔ جموں و کشمیر میں پہلی بار اقتدار کا مزہ چکھنے والی بھاجپا کا ذائقہ ریاست میں سرگرم علیحدگی پسندوں نے پتھر بازوں و اتحادی پی ڈی پی نیتاؤں کی آپسی کھینچ تان نے حالات اتنے خراب کردئے ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ خود وزیر اعظم اعتراف کرتے ہیں کہ جب وہ کہتے ہیں کہ ہمارے فوجی کشمیرمیں سیلاب آنے پر لوگوں کی جان بچاتے ہیں لوگ ان کے لئے تالیاں بجاتے ہیں لیکن بعد میں ہمارے فوجی پر پتھر بھی برساتے ہیں۔تازہ حالات یہ ہیں کہ وادی میں سکیورٹی فورسز پر الگ الگ مقامات پر یومیہ اوسطاً8 مرتبہ پتھر بازی ہورہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کے لئے تلاشی کارراوئی میں رکاوٹ ڈالنے پر ہی سکیورٹی فورس کے ذریعے سخت کارروائی کی جاتی ہے۔ دیگر معاملوں میں بھی ہمارے بہادر جوان پتھر جھیل کر بھی صبر کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک سال میں پتھر بازی کے 7889 واقعات ہوئے ہیں۔ ہر ماہ اوسطاً240 مرتبہ پتھر بازی ہورہی ہے۔ پچھلے سال اپریل میں 97 مقامات پرپتھر بازی کے واقعات ہوئے۔ اپریل کے15 دنوں میں 60 سے زیادہ واقعات ہوچکے ہیں۔ سرینگر ضمنی چناؤ کے بعد پتھر بازی کے واقعات اور بڑھ گئے ہیں۔ دہشت گرد برہان وانی کے مڈبھیڑ میں مارے جانے کے بعد جولائی2016ء میں شر پسندوں نے سکیورٹی فورس پر 837 مقامات پر پتھر برسائے لیکن ان دنوں کشمیر میں قانون و نظم کے حالات اتنے خراب ہیں کہ اتنے کبھی حالیہ تاریخ میں نہیں ہوئے۔ اب تو اسکولی طلبہ کلاسوں سے نکل کر وردی میں سکیورٹی فورس پر پتھر مارنے لگے ہیں۔ مشکل سے 15 دن پہلے ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست میں سب سے لمبی سرنگ کا افتتاح کرتے ہوئے ریاست کے نوجوانوں سے اپیل کی تھی ان کے پاس دو متبادل ہیں ٹورازم یا دہشت گردی۔ جن میں سے وہ کسی کو چن لیں۔روزگار اور تعلیم کے ذریعے وادی میں گمراہ لڑکوں و طلبہ کو قومی دھارا سے جوڑنے کی کوشش ضروری ہے۔ پہلے ان سے رابطہ قائم کیا جائے اور ان کا بھروسہ جیتا جائے لیکن کرنا تو پی ڈی پی سرکار کوہی ہے؟ کیا جموں وکشمیر میں صدر راج کا نفاس بہتر متبادل ہوگا؟ بری فوج کے چیف سرل وپن راوت کے جموں وکشمیر دورہ کے بعد جو رپورٹ سرکار کو سونپی گئی اس نے ریاست میں قانون و انتظام کے حالات باعث تشویش بتائے جانے کے ساتھ ہی اس کی بنیادی وجہ محبوبہ مفتی سرکار کے ذریعے پتھر بازوں کے ساتھ برتی جانے والی نرمی کو بتایا گیا ہے۔ کچھ اسی طرح رپورٹ ریاست کے گورنر ایم ۔ این ۔ووہرا اور قومی سلامتی مشیراجیت ڈوبھال نے بھی دی ہے۔ بھاجپا نے جو کچھ بھی سوچ کر ریاست میں پی ڈی پی کے ساتھ مل کر سرکار بنانے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ تجربہ فیل ہوگیا ہے۔ کشمیر میں اس سے بدتر حالات نہیں ہوسکتے۔ ذرائع کی مانیں تو بھاجپا نے ریاست میں طلاق کے لئے اپنا من بنالیا ہے لیکن طلاق سے پہلے وہ آخری کوشش کرنا چاہے گی۔ اسی کے چلتے بھاجپا صدر امت شاہ 29 اپریل کو جموں جانے والے ہیں۔ وہیں رام مادھو کی پی ڈی پی نیتاؤں سے ریاست میں قانون و انتظام کو لیکر لمبی بات چیت ہوئی ہے۔ دراصل بھاجپا کے لئے جموں و کشمیر کافی جذباتی ریاست رہی ہے لیکن جس طرح سے ریاست میں تقریباً خانہ جنگی کے حالات بنے ہوئے ہیں اس سے کہیں نہ کہیں بھاجپا کو یہ ڈرستانے لگا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں بنی رہی اور ریاست کے حالات نہیں سدھرے تو2019ء میں اپوزیشن پارٹیاں اسے زور شور سے چناؤ میں اٹھائیں گی تو پاکستان بھی پتھر بازی کے واقعات کی آڑ میں اسے پھر سے بین الاقوامی محاذ پر آزادی کی لڑائی کی شکل میں پروپگنڈہ کرنے لگے گا جس کا اثر نہ صرف بھاجپا کی قومیت والی ساکھ پر پڑسکتا ہے بلکہ اسے چناوی سیاست میں بھی خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ ریاست میں صدرراج لگانا بھی بہتر متبادل ہوسکتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں