آخر کار پاکستان نے بھی مان لیا حافظ سعید آتنکی ہے
آخرکار پاکستان نے پہلی بار ممبئی حملوں کے سازشی لشکر طیبہ کے سرغنہ حافظ سعید کو دہشت گرد مان لیا ہے۔پاکستانی اخبار ’ڈان‘ نیوز میں شائع رپورٹ میں ایک پولیس افسر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جماعت الدعوی کے چیف کو آتنک واد انسداد قانون کی فہرست میں ڈال دیاگیا ہے۔ خودپر گزری تو تھوڑا ہوش آیا۔ دہشت گردانہ واقعات میں 100 سے زیادہ لوگوں کے بعد ہی صحیح پاکستان نے بھارت کے اس گناہگار دہشت گرد کو دہشت گرد مان لیا ہے۔ اس کے چار دیگر ساتھیوں کو بھی اس فہرست میں شامل کئے جانے کی خبر ہے۔ آتنکی پاکستان کی اس کارروائی کو بھی اس کی منشا کے بجائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے کارروائی کا ڈر اور ہندوستان کی طرف سے بین الاقوامی اسٹیج پر گھیرا بندی کے دباؤ کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ بہرحال اب بھارت کے لئے یہ ثابت کرنا آسان ہے کہ کس طرح تمام دہشت گردوں کو پاکستان پہلے بچاتا ہے اور پھر دباؤ پڑنے پر ان کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔ اے ٹی اے (انسداد دہشت گردی ) قانون میں ڈالنے کا مطلب صاف ہے کہ یہ سبھی شخص کسی نہ کسی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شامل رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان اب قانونی طور پر یہ اعتراف کررہا ہے کہ حافظ سعید آتنکی ہے۔ پاکستان کے اس قانون کے مطابق اس فہرست میں شامل لوگوں کی پراپرٹیاں ضبط کرلی جاتی ہیں۔ ان کے پرانے سبھی دھندوں کی جانچ کی جاتی ہے۔ ان کے پیسے کے حساب کتاب کی جانچ کی جاتی ہے۔ ان کے کسی بھی باہری شخص سے ملنے جلنے پر روک لگ جاتی ہے ساتھ ہی ان کے خلاف دہشت گردی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے الزامات کی جانچ کی جاتی ہے۔ سعید 30 جنوری 2017 ء سے نظر بند ہے لیکن پاکستان نے اس سے پہلے 2008ء میں بھی اسے گرفتارکیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ اس بار جس قانون کے تحت اس کا نام شامل کیاگیا ہے وہ پہلے سے کافی سخت ہے۔ ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں کے مطابق حافظ سعید اور قاری کاشف پچھلے کچھ عرصے سے کشمیر مسئلے پر لگاتار نہ صرف پبلک ریلیاں کررہے تھے بلکہ بھارت کو کھلے عام سرجیکل اسٹرائک اور کشمیر معاملے پر انجام بھگتنے کی دھمکی دے رہے تھے لیکن پاک آگے سعید کو لیکر سختی دکھائے یا نہ دکھائے ، بھارت اس کے خلاف جو باتیں کررہا تھا اسے پاکستان حکومت نے بھی ایک طرح سے منظور کرلیا ہے۔ ابھی تک توپاکستان ہمیشہ کہتا رہا ہے کہ سعید کی سرگرمیاں پوری طرح سے راحتی کام و سیاسی ریلیوں تک محدود ہیں۔ اس سے پاک میں پھل پھول رہی ان جہادی تنظیموں پر تھوڑا لگام لگے گی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں