آر ایس ایس بنام راہل گاندھی
کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے آر ایس ایس کے بارے میں دئے گئے بیان پر مقدمہ کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ راہل گاندھی نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں اپنی عرضی بھی واپس لے لی۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ خود کو راشٹروادی بتانے والے سنگھ کے لوگ آزادی کی لہر کے وقت کہاں تھے؟ انگریزوں کو دیش سے بھگانے کی لڑائی میں سبھی مذاہب کے لوگوں نے تعاون دیا تھا لیکن سنگھ کے لوگ کہیں نظر نہیں آئے۔ خیال رہے سال2014ء کے عام چناؤ کے دوران راہل گاندھی نے ایک تقریر میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ آر ایس ایس کے لوگوں نے مہاتماگاندھی کو گولی ماری تھی اور یہ لوگ گاندھی کی بات کرتے ہیں۔ اس بیان کے بعد راجیش مہادیو کرتکے نے شکایت درج کرائی تھی۔ جمعرات کو راہل گاندھی کی طرف سے سپریم کورٹ میں کہا گیا تھا کہ وہ سنگھ کے بارے میں دئے گئے اپنے بیان پر قائم ہیں اور اسے نہیں بدلیں گے۔ کانگریس نیتا و وکیل کپل سبل نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم تھے، قائم ہیں اور رہیں گے اسے نہیں بدلیں گے۔ پچھلی سماعت پر کپل سبل نے کورٹ میں بتایا تھا کہ راہل نے سنگھ پر نہیں بلکہ اس سے جڑے کچھ لوگوں پر قتل کرنے کے بارے میں الزام لگایا تھا۔ راہل کے اس بیان کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ ایک دھارمک انجمن کے طورپر سنگھ گاندھی کے قتل کے لئے ذمہ دار نہیں ہے صرف کچھ لوگوں نے اسے مارا تھا۔ راہل کے اس رخ پلٹنے پر آر ایس ایس کے میڈیا چیف منموہن وید نے کہا کہ آخر کیوں راہل گاندھی دو برسوں سے سماعت ٹال رہے ہیں ، بہانے سے یا کچھ اور بات ہے؟ کیا یہ سچ کا سامنا کرنے سے ڈر رہے ہیں؟ وہ یو ٹرن لینا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سنگھ کو لیکر اپنا متنازعہ بیان واپس لینے سے راہل گاندھی کے انکار کے بعد بھاجپا اور کانگریس کی زبانی جنگ تیز ہونا فطری ہی ہے۔ سنگھ پر دی گئی بیان بازی کو لیکر دوبارہ یو ٹرن لینے والے کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کے سامنے بھاجپا نے نیا سوال رکھا ہے۔ 1984 ء کے سکھ دنگے اور ایمرجنسی کی یاد دلاتے ہوئے حکمراں پارٹی کے قومی سکریٹری شری کانت شرما نے پوچھا سنگھ کا کردار اور ضمیر کو لیکر ہے۔ دیش کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو صحیح تھے یا راہل گاندھی؟ شری کانت نے کہا کہ اترپردیش میں چناوی ماحول کو ذہن میں رکھتے ہوئے راہل گاندھی نے سپریم کورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے 1962ء میں چین کے ساتھ ہوئی جنگ میں آر ایس ایس کے رول کو دیکھتے ہوئے ہی پنڈت نہرو نے 26 جنوری کی پریڈ میں حصہ لینے کے لئے سنگھ کو مدعو کیا تھا لیکن وہ جاتنے تھے کہ سنگھ راشٹروادی ہے شری کانت نے کہا کہ لوگ جانتے ہیں کہ راہل خود 5 ہزار کروڑ روپے کے کرپشن کے معاملے میں مچلکے پر ضمانت کے بعد باہر ہیں اور 1984ء کے دنگوں میں بہت سے لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔وقت آنے پر جنتا اس کامعقول جواب دے گی۔ راہل گاندھی کے انکار سے دوسروں اور کانگریس نے اب اس اشو پر دوہری لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک طرح سے اس نے پورے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی تیاری کرلی ہے۔ عدالت میں راہل ہتک عزت کا مقدمہ لڑیں تو دوسری طرف سیاست کے میدان میں سنگھ ۔ بھاجپا کو جنتا کے سامنے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں گے۔ سنگھ پر تنقید کرتے ہوئے کانگریس نے کہا کون اصلی ہندو ہے ، راہل اس کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ کیونکہ کوئی ہندو گاندھی جی کو نہیں مارسکتا۔ کانگریس نے ہتک عزت کے اس معاملے کو اترپردیش کے چناؤ کیلئے بھاجپا ۔ سنگھ کا مشترکہ ایجنڈا بتایا ہے اور بھاجپا اور سنگھ پر حملے سے صاف ہے کانگریس اس معاملے کے سیاسی استعمال سے چوکنا نہیں چاہتی۔ اس لئے سپریم کورٹ سے ادھر راہل گاندھی نے معاملہ واپس لیا ادھر کانگریس کے میڈیا محکمے کے چیئرمین رندیپ سرجے والا نے پریس کانفرنس میں بھاجپا پر زبردست لفظی حملہ کیا ہے۔اب مقدمہ چلے گا، دیکھیں مقدمے میں اونٹ کس کرونٹ بیٹھتا ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں