نتیش اور لالو کو تگڑا جھٹکا

بہار ودھان پریشد کی 24 سیٹوں کے چناؤ میں برسر اقتدار جدیو ۔ راجد ۔ کانگریس مہا گٹھ بندھن کو تگڑا جھٹکا لگا ہے۔ وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے سہیوگیوں کا اتساہ بڑھنا قدرتی ہے۔ اس چناؤ میں152 امیدواروں کا سیاسی مستقبل داؤ پر تھا۔ ودھان پریشد کا لوک باڈی کوٹے کی 24 سیٹوں کیلئے 7 جولائی کو ووٹنگ ہوئی تھی۔ گوپال گنج میں سب سے کم 2 امیدوار چناؤ میدان میں تھے جبکہ سہرسہ میں سب سے زیادہ 14 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے تھے۔ اس چناؤ میں بھاجپا گٹھ بندھن سے مقابلے میں نتیش کمار ، لالو پرساد، کانگریس، راشٹریہ کانگریس پارٹی نے مہا گٹھ بندھن بنا کر چناؤ لڑا۔ بھاجپا اکیلے دم پر جے ڈی یو مہا گٹھ بندھن پر بھاری پڑی۔ این ڈی اے نے 14 جبکہ جے ڈی یو گٹھ بندھن نے8 سیٹیں جیتی ہیں۔ اس میں سے بھاجپا کو 12، ایل جے پی و آر ایس پی کو1-1 سیٹ ملی ہے جبکہ دیگر کو2 سیٹیں ملی ہیں۔ بہار ودھان سبھا چناؤ کا سیمی فائنل مانے جارہے اس چناؤ میں جیت سے بھاجپا کے حوصلے بلند ہیں۔ بھاجپا ترجمان شاہنواز حسین نے کہا کہ بہار میں بھاجپا ودھان سبھا چناؤ بھی جیتے گی۔ نتیش اور لالو کتنا بھی بڑا مہا گٹھ بندھن بنا لیں بہار کی جنتا نے انہیں نکار دیا ہے۔ ان نتائج سے یہ بھی صاف نظر آرہا ہے کہ کانگریس پر جے ڈی یو۔ آر جے ڈی گٹھ بندھن کتنا ہی مضبوط ہو بھاجپا کچھ معاملوں میں اس سے زیادہ بہتر حالت میں ہے۔ ودھان سبھا چناؤ سے ٹھیک پہلے ان نتیجوں سے راجیہ کے ووٹروں کو ایک پیغام تو گیا ہی ہے کیونکہ ان چناؤ کو سیمی فائنل کہا جارہا تھا۔ پردھان منتری نریندر مودی جب بہار میں مہم کی شروعات کریں گے تو ان کے سامنے اس جیت سے اتساہت بھاجپا کاریہ کرتا ہوں گے۔ ان نتائج نے نتیش ۔ لالو گٹھ بندھن کی پول کھول دی ہے، ہوا نکال دی ہے۔ بالائی سطح پر تو گٹھ بندھن ضرور بن گیا لیکن اس گٹھ بندھن کے بیچ زمینی سطح پر تال میل کا فقدان رہا ۔ یہ ہونا ہی تھا کیونکہ لگ بھگ 2 دہائی سے زیادہ تو یہ پارٹیاں بہار میں ایک دوسرے کے خلاف لڑتی رہی ہیں اور اس گٹھ بندھن کو بنے ہوئے بہت تھوڑا وقت ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دلوں کے کاریہ کرتاؤں میں تال میل کا فقدان نظر آگیا ہے۔ یہی نہیں ایک دوسرے کے خلاف چناؤ لڑتے رہے ہیں اب صرف نیتاؤں کے گلے ملنے سے کام نہیں چلتا۔ سالوں سے جے ڈی یو۔ آر جے ڈی ایک دوسرے کے خلاف لڑتی رہی ہیں۔ پھر بھی ودھان سبھا میں یہ بھی طے نہیں ہوپایا کہ اگلا وزیر اعلی کون ہوگا۔ بیشک لالو نے بھاری من سے نتیش کو قبول کرلیا ہولیکن اندرونی طور پرابھی بھی مخالفت چل رہی ہے۔ ان نتائج سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ بہار میں بھاجپا کا جو جن آدھار تھا وہ کافی حد تک موجود ہے اور مختلف ذاتوں کے ساتھ اس نے جو حکمت عملی بنائی تھی وہ اب بھی کارگر ہے۔ سب سے بڑا جھٹکا تو نتیش کمار کو لگا ہے انہیں جو جن سمرتھن کی امید تھی وہ نہیں ملی۔ یعنی وہ اتنے لوک پریہ نہیں ہیں جتنے وہ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔ بیشک ودھان پریشد اور ودھان سبھا چناؤ الگ الگ ہوتے ہیں، مدعے الگ الگ ہوتے ہیں اور ودھان پریشد کا اثر ودھان سبھا میں بھی پڑے ضروری نہیں ہے، لیکن پھر بھی ہوا کا تو پتہ چلتا ہے۔ نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کو اگلے دو مہینے بہت محنت کرنی ہوگی۔ بھاجپا کے لئے یہ نتائج شبھ سنکیت ہیں اور پارٹی کا اتساہت ہونا فطری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!