ان سیاسی پارٹیوں کو شفافیت سے پرہیز کیوں
سیاسی پارٹیوں کو عوام کو جوابدہ مان رہے آرٹی آئی یعنی اطلاعات حق قانون کے دائرے میں لانے کا مطالبہ پچھلے کئی برسوں سے اٹھ رہا ہے مگر پارٹیاں اسے ماننے پر راضی نہیں ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے بھاجپا کانگریس سمیت 6 سیاسی پارٹیوں کو نوٹس جاری کرکے پوچھا ہے کہ انہیں کیوں نہیں آر ٹی آئی کے دائرے میں لایا جائے؟ ان پارٹیوں کو اس مسئلے پر اپنا جواب داخل کرنے کے لئے 6 ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ غیر سرکاری انجمن ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارم نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرکے مانگ کی ہے کہ وہ سبھی قومی اور علاقائی پارٹیوں کے لئے اپنی آمدنی کے بارے میں مفصل جانکاری کا انکشاف کرنے کو ضروری بنائیں اس میں 20 ہزار روپے سے کم رقم کا چندہ بھی شامل ہے۔ اب تک 20 ہزار روپے سے کم چندہ دینے والوں کا نام بتانا ضروری نہیں ہے اس لئے سیاسی پارٹی بڑی رقم کو چھوٹی چھوٹی رقوم میں بانٹ کر درج کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ چناؤ کمیشن کے قانون سے بچنے کا دروازہ ہے جس کا فائدہ سبھی پارٹیاں اٹھاتی رہی ہیں۔ سینٹر انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) نے جون2003 ء میں فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی پارٹیاں کھلے طور پر پبلک اتھارٹی کی تشریح کے دائرے میں آتی ہیں اس لئے انہیں آر ٹی آئی کے تحت مانگی گئی اطلاعات دینی ہوں گی۔ مگر سیاسی پارٹیوں نے اس فیصلے کو نظرانداز کیا۔سی آئی سی ایک نیم جوڈیشیل ادارہ ہے۔
آخرکار وہ نوٹس بھیجنے کے علاوہ پارٹیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھانے میں کمزور تھا اس لئے پارٹیاں اسے سنجیدگی سے نہیں لیتیں لیکن اب یہ سوال دیش کی سپریم عدالت نے پوچھا ہے ظاہر ہے کہ اب پارٹیاں اس سوال کو نظر انداز نہیں کرسکتیں۔ ان کی یہ دلیل رہی ہے کہ آر ٹی آئی ایکٹ پاس کرتے وقت پارلیمنٹ نے سیاسی پارٹیوں کو اس کے ماتحت نہ رکھنے کا فیصلہ لیا تھا اور آئین تشکیل سازیہ کا یہ ضمیر کا حق ہے اس لئے کسی قانون کی وہیں تک حد ہوسکتی ہے جہاں تک پارلیمنٹ اسے طے کرتی ہے۔ مگر اب چیف جسٹس سپریم کورٹ ایم ایل دوت، جسٹس روپا کمار مشر اور جسٹس امیتابھ راؤ کی بنچ کے سامنے وہ عرضی ہے جس میں سیاسی پارٹیوں کو یہ ہدایت دینے کی گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنے سارے چندے کے ذرائع بتائیں۔بہتر ہوگا کہ تمام سیاسی پارٹیاں سینٹرل انفارمیشن کمیشن کے حکم کا احترام کریں۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ عدالتی نوٹس کے جواب میں خود کو آر ٹی آئی کے تحت لانے کا اعلان کردیں۔ دیر سویر تو انہیں ایسا کرنا ہی پڑے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں