ہیمراج کا سر کاٹنے والا آتنکی انور ڈھیر
ڈھائی برس پہلے جموں کی سرحد پر تیرہویں راجپوتانہ رائفلزبٹالین کے لانس نائک ہیمراج سنگھ کا سر کاٹ کر پاکستانیوں کو ہماری سکیورٹی فورس نے سخت جواب دیا ہے۔ ہیمراج کے سر کو کاٹنے والے آتنکی محمد انور کے ذریعے سرحد میں دراندازی کرنے کی کوشش میں ہندوستانی فوجیوں نے اسے مار گرایا ہے یہ خبر آتے ہی ہیمراج کا قاتل مارا گیا اس کے گاؤں (کوسی کلاں) میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ گاؤں میں اس بات پر خوشی ہے کہ ہیمراج کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ہیمراج کی بیوی نے بھارت سرکار سے آتنکی کا سر بھارت لائے جانے کی مانگ کی ہے۔ہیمراج کے رشتے داروں اور گاؤں والوں نے بدھوار کی شام آتش بازی کرکے دیوالی منائی اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ ہیمراج کی ودھوا بیوی دھرموتی نے اپنے شوہر کے سنمان میں ہی اس آتنکی کا بھی سر بھارت لائے جانے کی مانگ حکومت سے کی ہے۔ انہوں نے میڈیا سے کہا جس طرح پاک فوجیوں کی مددسے وہ آتنک وادی ان کے پتی کا سرکاٹ کے لے گیا تھا اسی طرح اس کا سر بھی کاٹ کر بھارت لایا جائے۔ غور طلب ہے کہ سال2013ء میں 8 جنوری کو جموں و کشمیر کی ویشنودیوی وادی خطے میں سرحد پر چوکسی کرتے وقت پاکستانی فوجیوں نے گھات لگاکر تیرویں راجستھان رائفلز کی 25 جوانوں کی فورس ٹکڑی میں شامل لانس نائک ہیمراج سنگھ اور لانس نائک سدھارکر سنگھ کو بے رحمانہ طریقے سے مار ڈالا تھا۔ بتایا جاتا ہے پاک آتنک وادی محمد انور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہیمراج سنگھ کا سر کاٹ کر لے گیا تھا۔ اس لئے اس کے مارے جانے کی خبر ملنے پر متھرا کے کوسی کلاں تھانہ علاقے کے گاؤں میں جشن منایا گیا۔ پیر کو پونچھ کے میندھر کوٹ سیکٹر میں ہوئی مدبھیڑ میں ہیمراج کا سر کاٹنے کی سازش رچنے والا لشکر طیبہ کا آتنکی محمود انور کو فوج نے مار گرایا۔ بتاتے ہیں جوانوں کے سر کاٹنے کی سازش انور کے پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں واقع گھر میں رچی گئی تھی۔ انور لشکر طیبہ کا خطرناک آتنکوادی تھا اور میندھر سیکٹر کی کرشنا وادی میں پاکستان کی ٹیم کا حصہ تھا۔ خفیہ ایجنسیوں کے ذرائع نے بتایا آتنکی انور پی او کے بروچ گاؤں کا رہنے والا تھا اور وہاں اس کی پرچون کی دوکان تھی۔ انور کے گھر پر پاک خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے کرنل صدیقی کی موجودگی میں ہوئی میٹنگ میں صوبیدار جاور خان، احمد خان اور دیگر شامل ہوئے۔ اس واردات کے بعد انور کو لشکر کا کمانڈر بنا دیا گیا تھا۔ اس واقعہ سے آئی ایس آئی کو دھکا پہنچا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں