لودھا کمیٹی کا دوررس اور تاریخی فیصلہ

کرکٹ کے چمکتے چہروں سے نقاب اترگیا۔ کرکٹ کو داغدار کرنے والوں کو باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔ آئی پی ایل میں سٹے بازوں کو لیکر سپریم کورٹ کے ذریعے تشکیل جسٹس آر ایس لودھا کمیٹی کے ذریعے دئے گئے فیصلے سے کرکٹ کی آڑ میں چل رہے گورکھ دھندے اور لمبے عرصے سے جاری مفادات کے ٹکراؤ سے وابستہ خدشات کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے ذریعے جسٹس لودھا کمیٹی نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے آئی پی ایل کی دو مشہور ٹیموں چنئی سپرکنگ اور راجستھان رائلز کی سانجھے داری پر دو سال کی روک لگادی ہے۔ ساتھ ہی ان دو بڑی ٹیموں کے معاون مالک گوروناتھ میپن (چنئی) اور راج کندرہ (راج) کو سٹے بازی میں ملوث پائے جانے پر تاحیات کرکٹ سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ہے یہ فیصلہ اس بی سی سی آئی کے منہ پر طمانچہ ہے جو مختار ادارے کی دہائی دے کر داد گیری کے انداز میں کرکٹ چلا رہی تھی اور نے آئی پی ایل میں سٹے بازی اور اسپاٹ فکسنگ معاملے میں جانچ میں ایمانداری نہیں دکھا کر قصورواروں کو بچانے کا کام کیا۔ اگر بی سی سی آئی میں کسی نے غلط کام کے لئے آواز اٹھائی ہوتی تو آج اسے یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا لیکن تب سبھی آنکھ بند کر اپنے آقا چیئرمین سرینواسن کی خوش آمد میں لگے ہوئے تھے۔ اصل سوال مہذب لوگوں کا کھیل سمجھے جانے والی کرکٹ کی ساکھ کا ہے جسے بٹہ لگانے میں اس کے کرتا دھرتاؤں نے ہی کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔ اس میں سب سے اوپر این سرینواسن کا نام رکھا جاسکتا ہے جن کے داماد گورو ناتھ میپن اور راجستھان رائلز کے مالک راج کندرہ پر لودھا کمیٹی نے تا حیات روک لگا دی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ سرینواسن اپنے داماد کو سزا سنائے جانے اور چنئی سپر کنگز پر دو سال کی پابندی کے باوجود اخلاقی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں۔ اس سے پہلے اس کے سابق کمشنر اور بھارت کو مطلوب للت مودی کو لیکر اٹھے حالیہ سیاسی طوفان سے یہ سچ سامنے آیا ہے کہ اس فیصلے نے آئی پی ایل کے تصور کو لیکر سوال کھڑے کردئے ہیں۔ یہ صرف سرینواسن اور للت مودی کی دوستی سے بدلتے عزم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ لگتا ہے کہ آئی پی ایل کو کچھ لوگوں نے ہی اس لئے کھڑا کیا تاکہ کھیل کی آڑ میں کروڑوں روپے کے وارے کے نیارے کئے جاسکیں۔اداکارہ شلپا شیٹی کے پتی برطانوی شہری راج کندرا جیسے لوگوں کا اس سٹے بازی میں ملوث ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کے تار بیرونی ممالک سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ویسے کمیٹی کے اس فیصلے سے کئی سوال بھی اٹھ سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو سزا کیوں؟ دوسرا کہ ان ٹیموں کے کھلاڑیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ان کی پھرسے نیلامی کی جائے گی؟ تیسرا ان ٹیموں کو نئے مالکوں کی پوزیشن میں یہ ٹیمیں کھیلنے کا جواز حاصل کرسکتی ہیں؟ جو حالت اب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آئی پی ایل میں صرف6 ٹیمیں ہی حصہ لے سکتی ہیں۔ اگلے آئی پی ایل ایڈیشن میں ضمنی میچ کم ہوجائیں گے۔ اس کا سیدھا اثر فرنچائزی، بی سی سی آئی اور ٹیلی کاسٹ حقوق حاصل کرنے والوں کی کمائی پر پڑے گا۔ جسٹس مدگل کی رپورٹ اور جسٹس لودھا کمیٹی کے فیصلے سے بہرحال یہ امید تو ضرور بندھی ہے کہ صرف لیپا پوتی کے لئے کچھ چھوٹے کرکٹروں کو ٹانگ دئے جانے سے کام نہیں چلے گا۔ سٹے بازی میں ملوث بڑے لوگوں کو بھی بخشا نہیں جائے گا۔ کرکٹ میں شفافیت لانے کے لئے ٹھوس قدم اٹھانے ہوں گے لیکن بڑا سوال تو یہی ہے کہ کیا بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ سرینواسن کی چھایا سے باہر نکل پائے گا؟ سرینواسن نے اپنے داماد کو بچانے کے لئے پوری طاقت جھونک دی تھی اور پورے معاملے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اگر وہ وقت رہتے سختی دکھاتے تو ووٹ کی ساکھ پر آنچ نہ آتی اور نہ ہی آئی پی ایل بدنام ہوتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!