سنسنی خیز سازش کے الزام میں سابق آئی اے ایس افسرگرفتار

ہریانہ کے سرخیوں میں چھائے جے بی ٹی گھوٹالے میں قصوروار قراردئے گئے سابق آئی اے ایس افسر سنجیو کمار کو دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے دہلی کے کاروباری ٹکا حسن مصطفی کے قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ سنجیو کمار کے ساتھ دہلی سمیت کئی شہروں کا خطرناک بدمعاش شوکت پاشا کو اس کے دو شارپ شوٹر توفیق اور منن عرف مونو عرف مرتضیٰ کو بھی گرفتار کیا ہے۔ سنجیو کمار کو جے بی ٹی گھوٹالے میں 55 لوگوں کے ساتھ سی بی آئی نے پکڑا تھا۔ اوم پرکاش چوٹالہ اور سنجیو کمار کو گھوٹالے کا اہم سازشی مان کر دونوں کو ملا کر پانچ ملزمان کو10-10 سال کی قید کی سزا ہوئی تھی۔ تہاڑ جیل میں قریب ڈیڑھ سال کی سزا کاٹنے کے بعد سنجیو کمار کو پچھلے سال جون میں میڈیکل گراؤنڈ پر ضمانت مل گئی تھی۔ وہ نیو فرینڈز کالونی میں رہنے والے دوست ٹکا حسن مصطفی کے گھر میں رہنے لگا۔ ٹکا بنیادی طور سے علیگڑھ کا رہنے والا ہے اور اس کا پراپرٹی کا کام ہے۔ دونوں پہلے بھی پراپرٹی کا کام کیا کرتے تھے۔ اس درمیان ٹکا سے پراپرٹی کو لیکر جھگڑا ہوگیا تھا۔ سنجیو کمار کی تہاڑ جیل میں بدمعاش شوکت پاشا سے دوستی ہوگئی تھی۔ اسی سے رابطہ قائم کر سنجیو نے اپنے ہی دوست کو مروانے کا منصوبہ بنایا۔ اس کیلئے سنجیو نے 20 لاکھ روپے کی سپاری دی تھی۔ سنجیو نے اس سے کہا تھا کہ دہلی کے ساؤتھ ایریا میں واقع ایک ہوٹل میں واردات کو انجام دیا جائے گا۔ پہلے اس کے پیر اور جسم کے کسی ایسے حصے پر مارنا جو بغیر گہرہ زخم کئینکل جائے جبکہ دوسری گولی دوست کو لگنی چاہئے جس سے وہ مرجائے۔ سنجیو کو ڈر تھا کہ اس کے جیل میں رہتے ہوئے کہیں ٹکا حسن اس کی ساری پراپرٹی نہ ہڑپ جائے۔ سنجیو نے یہ سازش دو تین مقصد حاصل کرنے کیلئے رچی تھی۔ پہلا وہ اپنے دوست اور بزنس پارٹنر ٹکا کو مروانا چاہتا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا ٹکا اس کی جائیداد ہتیا سکتا ہے۔ ٹکا اس کی پراپرٹی کی دیکھ ریکھ کیا کرتا تھا۔ دوسرا ٹکا کا قتل اور خود پر حملے کے لئے سابق وزیر اعلی اوم پرکاش چوٹالہ اور اس کے خاندان کے دیگر ممبران کو پھنسانے کا تھا۔ تیسرا خود حملے میں زخمی ہوکر ضمانت کی میعاد بڑھوانا چاہتا تھا۔1985 بیچ کے افسر سنجیو کمار ہریانہ کے جے بی ٹی ( جونیئر بیسک ٹیچر) ہیں۔ بھرتی گھوٹالے میں ملزم ہیں۔ سنجیو پر 2013 ء میں تہاڑ جیل میں بھی حملہ ہوا تھا۔ اس سلسلے میں شکایت ملنے پر دہلی کے ہری نگر تھانہ پولیس نے مقدمہ درج کرلیاتھا لیکن اب لگ رہا ہے کہ تہاڑ جیل میں وہ حملہ صرف ایک ناٹک تھا۔ سنجیو کمار کا کہنا ہے مجھے شروعات سے ہی پھنسایا گیا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ میں سچائی کسی کو نہ بتادوں۔ اس کیلئے مجھ پر تہاڑ جیل نمبر4 میں جان لیوا حملہ بھی کرایا گیا تھا جس کے بعد مجھے دوسری جیل میں بھیج دیا تھا۔ اسی ڈر کی وجہ سے میں ذہنی طور سے بیمار ہوگیا تھا۔ اب اگر مجھے پھنسانے کی کوشش کی گئی تو میں مٹی کا تیل ڈال کر خودکشی کرلوں گا۔ یہ سب معاملے کو کمزور کرنے کی سیاسی سازش ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟