نجیب اور کیجری میں دہلی کی سپرمیسی کیلئے جنگ

آخر کار دہلی کا باس کون ہے؟اسے لیکر ایک بار پھر دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال آمنے سامنے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان فائلوں کو لیکر ٹکرار بڑھ گئی ہے۔ پچھلے دو مہینے میں یہ چوتھی بار ہے جب دونوں میں ٹھنی ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر نے ایتوار کو دہلی سرکار کے سبھی وزرا اور حکام کو سخت ہدایت دی کہ مختلف اشوز سے وابستہ سبھی فائلیں ان کے پاس لائی جائیں۔ لیفٹیننٹ گورنر کے یہ احکامات میڈیا کی اس رپورٹ کے بعد آئے جس میں کہا گیا تھا کہ ہر فائل ایل جی کے دفتر سے ہوکر نہ جائے۔ اس طرح نجیب جنگ نے وزیر اعلی اروند کیجریوال کے اس حکم کو پلٹ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس ،قانون و نظم ،زمین وغیرہ سے وابستہ سبھی فائلیں ایل جی کو بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایل جی نے قومی راجدھانی خطہ دہلی ایکٹ 1991 اور ٹرانزیکشن آف بزنس رولز 1993 کی شقات کا حوالہ بھی دیا۔ لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ آئینی عمل کے مطابق وزیر اعلی اور ان کی کیبنٹ ایل جی کو صلاح اور تعاون دینے کے لئے ہے۔ جنگ نے سرکار کے ذریعے افسروں کیلئے جاری وزیر اعلی کے احکامات کو واپس لینے کی بھی ہدایت دی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے افسروں کیلئے آئین اور دہلی ایکٹ اور بزنس رولز کیا لفظی اور خودساختہ طور پر تعمیل ضروری ہے۔بقول جنگ قانون میں یہ صاف ہے کہ جن موضوعات پر اسمبلی قانون بنانے کو آزاد ہے ، ان کی فائلیں بھی آخری رضامندی کیلئے ایل جی کو بھیجی جائیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق29 اپریل کو اروند کیجریوال نے سبھی محکموں کو لکھے خط میں کہا تھا کہ ہر فائل ایل جی کے پاس بھیجنے کی خانہ پوری کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر اعلی نے سیکشن239 اے کے حوالے سے کہا تھا کہ دہلی اسمبلی کو سونپے گئے اشوز سے متعلق فائلیں ایل جی کے پاس بھیجنا ضروری نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلی لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر نے اس صورتحال سے وزارت داخلہ کو بھی واقف کرادیا ہے یہاں سے بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ آئینی سسٹم نے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کو سپریم مانا ہے اور وہ دہلی کے ایڈمنسٹریٹر ہیں اور ان کے وقار کو کم نہیں کیا جاسکتا اور دہلی سرکار آئینی دائرے میں کام کرنے کیلئے پابند ہے۔ یہ پہلی بار نہیں جب کیجریوال ۔ نجیب جنگ سے ٹکرائے ہیں۔ وہ جب پہلی بار49 دن کے لئے وزیر اعلی بنے تھے تو جن لوکپال بل کو یوان میں رکھنے کی لیفٹیننٹ گورنر آفس سے منظوری نہ ملنے کے بعد بھی ایوان میں رکھنے کی کوشش کی تھی اور اس وقت اپوزیشن کی مخالفت کے درمیان اسمبلی اسپیکر کی کرسی پر بیٹھے ایم ایس دھیر نے عہدے کے وقار کو داغدار ہوتے دیکھتے ہوئے اسے منظوری نہیں دی اور اسے لیکر کیجریوال نے استعفیٰ دیا لیکن اس بار حالات الگ ہیں۔ اروند کیجریوال زبردست اکثریت سے وزیر اعلی بنے ہیں۔ جہاں تک ایوان کا سوال ہے تو یہ آسانی سے کوئی بھی بل یا تجویز پاس کروا سکتے ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ ٹکراؤ بڑھے گا اور وزارت داخلہ کو اس معاملے میں مداخلت کرنی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟