نیپال کو سنبھلنے میں برسوں لگ جائیں گے

نیپال ایشیا کے سب سے غریب ممالک میں سے ایک ہے. شدید زلزلے کے بعد مسلسل بڑھ رہی مرنے والوں کی تعداد سے ابھی تک اس سانحہ میں جان مال کے نقصان کا صحیح اندازہ لگا پانا مشکل ہے. نیپال کے زلزلے نے معیشت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے. ایک اندازہ ہے کہ ہفتہ کے اس شدید زلزلے سے نیپال کو قریب 20 ارب لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے. یہ اندازہ امریکی جغرافیائی سروے کا ہے اور یہ ابتدائی اعداد و شمار ہیں. اس میں اور اضافہ ہو سکتا ہے. ماہرین کا خیال ہے کہ اس سانحہ پر قابو پانے میں نیپال کو ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے. نیپال کی معیشت میں تقریبا 53 فیصد کی حصہ داری والے کی سروس سیکٹر کا سب سے بڑا حصہ سیاحت کا ہے. لیکن زلزلے سے کھٹمنڈو کی تمام عالمی وراثتیں نیست و نابودہو چکی ہیں. انہیں دیکھنے ہی سیاح نیپال آتے تھے. کھٹمنڈو کے تربھون یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر بھوما شمی پانڈے نے بتایا کہ سیاحت ہی پورے نیپال کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے. یہاں آنے والے ہر چھ غیر ملکی سیاح ایک نیپالی کو روزگار فراہم کرتا ہے. سیاحت کی صنعت نے 2014 می5.36 لاکھ لوگوں کو براہ راست روزگار مہیا کرایا تھا جبکہ 2013 میں یہ اعداد و شمار5.04لاکھ کا تھا. گزشتہ سال8.06 لاکھ غیر ملکی سیاح نیپال آئے تھے. اس سال یہ اعداد و شمار 10 لاکھ کے قریب ہونے کا اندازہ تھا. لیکن زلزلے نے ان امکانات کو تباہ کر دیا. دور دراز کے پہاڑی علاقے تقریبا مکمل طور منہدم ہو چکے ہیں. قدیم شہر بھکتاپور کے بڑے حصے میں عمارتیں جزمین دوس ہو گئی ہیں. نیپال میں ڈھائی لاکھ عمارتوں کو پوری طرح یا جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے. زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد تقریبا 7000 کے قریب پہنچ چکی ہے اور اب یہ اعداد و شمار بڑھے گا۔ اقوام متحدہ کے مطابق زلزلے سے 80 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں. بنیادی ڈھانچے کے معاملے میں نیپال کئی سال پیچھے چلا گیا ہے. طویل خانہ جنگی کے بعد اس ہمالیائی ملک کی معیشت دھیرے دھیرے سدھرنے لگی تھی پر اسے اچانک ایک بڑا صدمہ لگا ہے. کئی سال تک ماؤنوازوں سے لڑتے رہنے کے بعد 2006 میں یہاں ماؤنوازوں کا خاتمہ ہوا اور نیپال کو بہتر بنانے کے راستے پر آگے بڑھنے لگا لیکن زلزلے کے بعد اب اسے اپنی بکھری معیشت کی تعمیر نو میں کافی مشقت کرنی پڑے گی اور وہ اپنے بل پر یہ کام نہیں کر پائے گا. قابل ذکر ہے کہ نیپال کی سالانہ فی شخص جی ڈی پی صرف 1000 ڈالر ہے اور یہاں زیادہ تر خاندان غربت سے نیچے کی زندگی گزر کر رہے ہیں اور وہ بنیادی طور پر زراعت پر انحصار ہیں. فوری مدد کے لئے بھارت کے علاوہ چین اسرائیل امریکہ اور یوروپ کے کئی ملک آگے آئے ہین۔ لیکن یہ تال میل اور قوت ارادی نیپال کی بگڑی صورت سنوارنے تک برقرار رکھنی ہوگی. یہ زلزلے کے سنگین خطرے والا ہے. اس لئے اس کے بحالی کا مکمل منصوبہ بندی زلزلہ انسداد ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہی کیا جانا چاہئے. یہ اتنی بڑی المیہ ہے کہ نیپال کو اس سے نمٹنے میں سالوں لگ جائیں گے اور جھٹکے تو اب بھی آ رہے ہیں.
انل نریندر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟