اور اب ایک اور نربھیا کانڈ!

پنجاب کے موگا ضلع میں چلتی بس میں ماں بیٹی کے ساتھ جنسی تشدد کی کوشش نے ایک بار پھر 16 دسمبر2012ء میں ہوئے نربھیا کانڈ کی یاد کو تازہ کردیا ہے۔ دونوں ہی جنسی تشدد کی وجہ سے نوجوان عورتوں کی موت ہوئی ہے اور دونوں ہی واقعات بسوں میں ہوئے ہیں۔تازہ واردات میں اپنے ارادے میں ملزم کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن ایک طرح سے انہوں نے لڑکی کو مار ڈالا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس ماں اور بیٹی کے ساتھ کنڈیکٹر اور اس کے تین ساتھی چھیڑ خانی کرتے رہے ،لڑکی اور اس کے بھائی کے شور مچانے اور اپنے ارادے میں ناکام رہنے پر ماں بیٹی کو چلتی بس سے باہر پھینک دیا اور باقی مسافر سب چپ چاپ دیکھتے رہے۔مسافر خاتون سندر کور اور ان کی بیٹی ارش دیپ کورجو 7 ویں کلاس میں پڑھتی تھی، بیٹا اکش دیپ بدھوار کو شام موگا سے وادھاپرانا جانے کے لئے آربٹ ایوی ایشن کی بس میں سوار ہوئے۔ بس جب وادھا پرانا ٹول پر رکی اور وہاں امرجیت بس میں سوار ہوا۔ بس چلنے پر کنڈیکٹر، ہیلپر اور امرجیت نے بیٹی ارش دیپ سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی جس کی ماں نے مخالفت کی۔عورت نے پولیس کو بتایا کہ چھیڑ چھاڑ کی مخالفت کئے جانے پر کنڈیکٹر ،ہیلپر، امرجیت نے ماں بیٹی کو گل گاؤں کے قریب چلتی بس سے دھکا دے دیا۔ اس واقعہ میں ارش دیپ کی موقعہ پر ہی موت ہوگئی جبکہ اس کی ماں سندر کو شدید طور پرزخمی ہوگئی جنہیں موگا کہ سول ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ پنجاب پردیش کانگریس کے صدر پرتاپ سنگھ باجوا کے مطابق آربٹ ایوی ایشن پنجاب کی سب سے بڑی کمپنی ہے اور ریاست میں چلنی والی 60 فیصد پرائیویٹ بسیں اسی کمپنی کی ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل کے بیٹے اور پنجاب کے نائب وزیر اعلی سکھبیر سنگھ بادل کے پاس لگژری بسوں کا بہت بڑا بیڑا ہے اور ان کو آربٹ ایوی ایشن وغیرہ کمپنیوں کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کنڈیکٹر، ڈرائیور اور ان کے ساتھ کچھ لوگ مسافروں کے موجود ہونے کے باوجود ایسی بربریت پر کیسے اتر آئے؟ بس میں موجود لوگوں کی غیر سنجیدگی کے علاوہ اس سوال کا جواب شاید یہ بھی ہے کہ بس آربٹ ایوی ایشن کمپنی کی ہے اور اس کے مالک پنجاب کے نائب وزیر اعلی سکھبیر سنگھ بادل ہیں۔ بس کے کنڈیکٹراورباقی کے ملازم اس قدر بے لگام تھے یہ محض ان کا اخلاقی زوال ہی نہیں تھا بلکہ ان کے دل میں یہ بات بیٹھی رہی ہوگی کہ ان کے مالک بہت طاقتور لوگ ہیں وہ کچھ بھی کریں ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ عورتوں کی سلامتی اور سنمان کو لیکر ہمارے دیش میں اتنے زیادہ شور کے باوجود زمینی سطح پر اگر کوئی بہتری نہیں دکھائی دے رہی تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سماج کے نظریئے میں عورتوں کی برابری اور احترام کی قدر نہیں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جب آبروریزی کا کوئی واقعہ تذکرۂ بحث بن جاتا ہے تو سرکاریں تمام طرح کی وعدے کرتی ہیں۔ سماج میں ہلچل پیدا ہوتی ہے لیکن کچھ دنوں کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہونے لگتا ہے۔ مجرم عناصر بے خوف رہتے ہیں اور جرائم کے وقت آس پاس موجود لوگ بھی خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ پولیس انتظامیہ کے رویئے میں کوئی خاص فرق نہیں آتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟