ماں ہندو۔والد مسلم اس لئے میں انڈین ہوں

کالے ہرن کے شکار سے وابستہ اسلحہ ایکٹ معاملے میں ملزم فلم اسٹار سلمان خان بدھ کے روز جودھپور کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوئے۔ سلمان 17 سال پرانے مقدمے میں اپنا بیان درج کرانے آئے تھے۔ محترمہ جج انوپما بجلانی نے جب سلمان سے ان کی ذات پوچھی تو سلمان کے جواب سے عدالت میں سبھی ہکے بکے رہ گئے۔ جج نے پوچھا نام کیا ہے؟ جواب سلمان ۔ والد کا نام کیا ہے؟ سلیم خان۔ آپ کی عمر کتنی ہے؟ 39 سال۔ آپ کا پتہ کیا ہے؟ ممبئی میں رہتا ہوں۔ آپ کی برادری کیا ہے؟ جواب نہیں دیا۔ جج محترمہ نے پھر سوال دوہرایا آپ کی ذات کیا ہے؟ سلمان نے انگریزی میں کہا ہندو اینڈ مسلم دونوں۔ میرے والد مسلم اور ماں ہندو ہیں یعنی میں ہندوستانی ہوں۔ میرے والد مسلم ہیں والدہ ہندو اس لئے میں انڈین ہوں۔ سلمان خان کی حاضر جوابی سے جج صاحبہ حیرت میں پڑ گئیں۔ سلمان نے بیان میں اپنے اوپر لگے کالے ہرن کے شکار اور ناجائز ہتھیار رکھنے سمیت سبھی الزامات کو مسترد کردیا۔ سلمان کا کہنا تھا کہ میں بے قصور ہوں۔ مجھے جھوٹے معاملے میں پھنسایا جارہا ہے۔ محکمہ جنگلات کے افسران کے کہنے پر گواہوں نے میرے خلاف گواہی دی ہے۔ میں اپنے بچاؤ میں اور ثبوت پیش کرنا چاہتا ہوں۔ عدالت نے ان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے 4 مئی کی تاریخ طے کردی ہے۔ ساتھ ہی گواہ کے نہ آنے کے سبب معاملے کی سماعت 2 مئی تک ٹال دی گئی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ سلمان سال1998 میں فلم ’’ہم ساتھ ساتھ ہیں‘‘ کی شوٹنگ جودھپور کے قریب کرنے گئے تھے۔ جودھپور کے کنکنی گاؤں میں 1 اور 2 اکتوبر 1998 کی درمیانی رات ان پر دو کالے ہرنوں کا شکار کرنے کا الزام لگایا گیا۔ جنگلی جانور تحفظ ایکٹ کے تحت کالے ہرن کا شکار ممنوع ہے۔ سلمان پر ناجائز طور پر ہتھیار رکھنے و اس کا استعمال کا بھی الزام ہے۔ عدالتی سماعت کے دوران عدالت کا کمرہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سلمان کے ساتھ ساتھ ان کا بارڈی گارڈ شیرا اور بہن الویرا بھی وہاں موجود تھے۔ اس معاملے میں اداکارہ سونالی بیندرے، تبو، نیلم، اداکار ستیش شاہ بھی ملزم ہیں۔ ہرن شکار کے تین معاملوں میں سے دو میں سلمان کو سزا سنائی جاچکی ہے جبکہ کنکنی ہرن شکار معاملے کی سماعت ابھی تک جاری ہے۔ سرکاری فریق نے اب تک 20 گواہوں کے بیان درج کرواکر سبھی ثبوت اکھٹے کر لئے ہیں۔ عدالت ہذا نے سلمان کے ملزم بیان بھی بدھوار کو ریکارڈ کر لئے ہیں۔ اب 4 مئی کو سلمان کی جانب سے ایک گواہ کی فہرست پیش کی جائے گی جنہیں وہ اپنے بچاؤ میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ان گواہوں کے بیان ہونے کے بعد کورٹ دونوں فریقوں کی بحث سنے گی اور اس کے بعد فیصلے کی تاریخ طے ہوگی۔ کیونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس لئے معاملے کے بارے میں کوئی رائے زنی کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ عدالت میں کارروائی جاری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟