امریکہ کی عراق میں مداخلت مجبوری بن گئی ہے!

تین سال بعد امریکہ مسلسل خراب ہوتے ماحول کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر عراق جنگ میں کود پڑا ہے۔ اس نے اربل کے قریب شمالی عراق میں آئی ایس آئی ایس کے آتنکی کے خلاف جمعہ کو دو ایف جنگی ۔18 جہازوں نے 500 پاؤنڈ وزن کے لیزر بم گرائے۔ اس حملے میں 55 آتنک وادی مارے گئے 60 زخمی ہوئے۔ امریکی حملے کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایس آئی ایس کے لڑاکو نے موصول کے پاس عیسائی آبادی والے سب سے بڑے شہر قراقوش پر قبضہ کرلیا ہے۔ سنجار کی پہاڑیوں پر 48 گھنٹے سے 30 ہزار خاندان بھوکے پیاسے پھنسے ہوئے ہیں۔ اس میں25 ہزار بچے ، عورتیں شامل ہیں۔ 70 بچوں کی موت تو بھوک پیاس کی وجہ سے اور دم گھٹنے سے ہوچکی ہے۔500 مردوں کا قتل کردیا گیا ہے۔ آتنکیوں کے حملوں سے بچنے کے لئے ایک لاکھ عیسائی پہاڑی میں چلے گئے ہیں۔ اوبامہ کے اعلان سے پہلے ہی امریکی جنگی جہاز الرٹ ہوچکے تھے۔ اس کے C-17 اورC-130 جہاز 20060 لیٹر صاف پانی اور 8 ہزار کھانے کے پیکٹ گرا چکے تھے۔ دراصل آئی ایس آئی ایس کے آتنکی کرد علاقے کی راجدھانی اربل تک پہنچ گئے ہیں۔ یہاں نہ صرف امریکی قونصل خانہ ہے ساتھ ہی یہاں امریکہ کا زونل سب سے بڑا فوجی اڈا بھی ہے۔ اربل میں امریکہ کے ایک ہزار لوگ جن میں امریکی فوجی مشیر ڈپلومیٹ و ان کے کنبے والے موجود ہیں، اس لئے امریکہ نے دوہرے مقصد سے یہ حملے کئے ہیں۔ پہلا تو عیسائیوں سے راحت پہنچانا ہے دوسرا اپنے اڈے و موجود امریکی شہریوں کو بچانا ہے۔ کرد علاقے میں 45 ارب بیرل تیل کا ذخیرہ ہے جسے بچانا ضروری ہے۔ قارئین کو یاد کرادیں کہ آئی ایس آئی ایس آخر ہے کیا؟ شام و عراق میں اسلامی حکومت قائم کرنے کیلئے جہاد چھیڑنے والی یہ کٹر سنی تنظیم پہلے اسلامک اسٹیٹ آف شام اینڈ عراق کے نام سے جانی جاتی تھی۔ شام سے لیکر عراق کے فاضولا تک قریب ایک ہزار کلو میٹر کے علاقے پر قبضہ جمانے کے بعد اس کا سرغنہ ابو برق البغدادی نے خود کو مسلمانوں کا خلیفہ اعلان کردیا اور اس تنظیم کا نام بدل کر اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کردیا ہے۔ آئی ایس خاص طور پر شیعوں اور یہودیوں سے نفرت کرتی ہے جنہیں وہ نقلی مسلمان مانتی ہے۔ بغدادی صاف کہہ چکا ہے اس کا نشانہ شیعوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کا خاتمہ کرکے کٹر سنی ملک قائم کرنا ہے۔ یہ نجف اور کربلا کو بھی نیست و نابود کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔ تنظیم اس سے پہلے بھی کئی تباہ کن واردات انجام دے چکی ہے۔ ابھی تک عراقی اور شامی فوج پر حملہ کرتاتھا لیکن حال ہی میں اس نے کردوں پر بھی حملے شروع کردئے ہیں۔ امریکہ کے حملے سے بوکھلائے ابوبرق البغدادی نے جمعہ کو ایک پیغام بھیجا۔ اس میں لکھا ہے یہ پیغام امریکہ کیلئے ہے۔ سنی تمہاری طرف سے جو بھی لڑ رہے ہیں وہ تمہیں عراق اور شام میں کوئی فائدہ نہیں دینے والے ہیں۔جلد ہی تمہارا سامنا سیدھے اسلام کے بندوں سے ہوگا جنہوں نے خود کو اس دن کے لئے تیار کر رکھا ہے، ہم تم سے جنگ لڑیں گے۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے عراق کے کئی شہروں میں قابض آئی ایس آئی ایس کے ٹھکانوں پر حملے کا فیصلہ اس لئے صحیح ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے شمالی عراق میں پھنسے ہزاروں لوگوں کی جان خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ یہ تعجب ہے کہ آئی ایس آئی ایس عراق کے سبھی مذہبی گروپوں پر یہاں تک کہ شیعوں کا بھی قتل عام کررہی ہے لیکن عالمی برادری ایک لفظ بھی بولنے کو تیار نہیں ہے، کسی طرح کی کارروائی کرنا تو دور کی بات ہے۔ اقوام متحدہ بھی اس قتل عام پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ امریکہ ابھی تک مشکل میں تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ عراق کی صورتحال کیلئے وہ ہی ذمہ دار ہے۔ کچھ عرصے تک عراق میں فوجی مداخلت کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑی تھی۔ ٹھیک ویسی ہی افغانستان میں چکانی پڑ رہی ہے۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ 2011 ء میں امریکی فوج عراق کو جس حالت میں چھوڑ کر وہاں سے گئی تھی آج عراق تقریباً اسی حالت میں پہنچ گیا ہے۔ امریکہ کو نہ چاہتے ہوئے بھی پھر سے عراق میں مداخلت کرنی پڑ رہی ہے۔ اسی برس امریکہ افغانستان سے بھی نکلنا چاہتا ہے۔ تو کیا افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت سے جو نقصان ہورہا ہے ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عراق میں جو جنگ لڑی جارہی ہے اس میں تیزی آئے گی اور دیکھنا یہ ہوگا امریکہ کس حد تک اس میں کودنے کو تیار ہوگا؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟