اگر جرم کے مطابق سزا ہوگی تو نابالغ مجرموں پر لگام لگے گی!

مودی سرکار کی تعریف کرنی ہوگی کہ نابالغ مجرموں کو سزا دینے کے معاملے میں بدلاؤ کرنے کی اس نے اچھا شکتی دکھائی ہے اور اس حساس مدعہ پر ضروری بدلاؤ کرنے کی قواعد کی ہے۔ نابالغ نوجوانوں کے ذریعے کئے جارہے سنگین مجرمانہ واقعات پر قابو پانے کیلئے کیندر سرکار نے جوئینائل جسٹس ایکٹ میں بدلاؤ کیلئے جو منظوری دی ہے اس کا سواگت کیا جانا چاہئے۔ گذشتہ کچھ وقت سے نابالغ مجرموں کی شمولیت جس طرح سنگین وارداتوں میں سامنے آرہی ہے اس سے پورا دیش فکرمند ہے۔ کیبنٹ کے فیصلے کے بعد جب سنسد سے یہ پاس ہوجائے گا تو موجودہ قانون میں یہ بدلاؤ آئے گا۔ جوئینائل جسٹس بورڈ نابالغوں کے جرم کی سنگینی دیکھ کر یہ طے کرے گا کہ انہیں سدھار گرہ بھیجا جائے یا عام عدالت میں ان کا معاملہ چلے گا۔ ابھی جو قانون ہے اس میں 18 سال سے کم عمر کے نوجوانوں کو ان کے جرم کی سزا سدھار گرہ میں رہ کر بھگتنی پڑتی ہے۔جوئینائل جسٹس ایکٹ میں بدلاؤ کی یہ پہل دراصل وقت کی مانگ ہے۔ دہلی گینگ ریپ معاملہ ہمارے سامنے ہے۔ اس گھناؤنی واردات کا ماسٹر مائنڈ اس لئے آسانی سے چھوٹ گیا(تین سال کی سزا)کیونکہ وہ موجودہ قانون کے تحت نابالغ تھا۔میرا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ جب نابالغ ایسے سنگین جرم کو پلان کرسکتا ہے جو ایک بڑا آدمی بھی نہیں کرسکتا، تو وہ نابالغ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ عمر کے حساب سے سزا نہیں ملنی چاہئے بلکہ جرم کی سنگینی کو دیکھ کر۔ سچائی یہ ہے کہ سالوں سے سنگین جرائم میں نابالغوں کی شمولیت کی شرح چونکانے والی حد تک بڑھی ہے۔ یہی نہیں جرم کو انجام دینے میں اب ان کی عمر آڑے نہیں آتی بلکہ سنگین جرائم میں ان کی سنگینی کئی بار پیشہ ور مجرموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ خود سپریم کورٹ کہہ چکا ہے کہ نابالغوں کے ذریعے انجام دئے جانے والے سنگین اور کم سنگین جرائم کے درمیان فرق کرنا چاہئے۔ خواتین کے خلاف جس طرح جرائم بڑھ رہے ہیں اس پر فوری روک لگانا بہت ضروری ہے۔ممکن ہے بڑوں کی غلط صحبت میں آنے کے بعدمجرمانہ ذہنیت کے نابالغوں کو اس بات کا علم بھی کہیں نہ کہیں ہوتا ہے کہ کم عمر ان کے جرم کی سزا کم کرنے میں معاون ہوگی۔ سرکار کے ذریعے پیش ترمیم کے لاگو ہونے کے بعد اب جوئینائل جسٹس بورڈ جرم کی سنگینی کا تجزیہ کرتے ہوئے نابالغ مجرموں کو بھی بالغ مجرموں کی عدالت کے تحت پیش کرنے کی سفارش کرسکے گا۔آئینی نقطہ نظر سے یقینی طور پر یہ ایک اچھا قدم ہے۔ وقت کے مطابق جوئینائل جسٹس ایکٹ کو بدلنا چاہئے لیکن کوشش یہ بھی ہونی چاہئے کہ یہ بدلاؤ اتنا بھی سخت نہیں ہونا چاہئے کہ نابالغ مجرموں کے سدھرنے کے امکانات ہی ختم ہوجائیں۔ قانون میں بدلاؤ کی قوت ارادی دکھاتے ہوئے بھی سرکار نے اس معاملے کی حساسیت کا پورا خیال رکھا ہے کیونکہ نئے قانون میں بھی جرم کی سنگینی جوئینائل جسٹس بورڈ ہی طے کرے گا۔ ایسے میں اس شک کا بھی کوئی آدھار نہیں ہے کہ حقیقی قانون سخت ہوگا یا نابالغوں کو سدھرنے کا موقعہ نہیں دے گا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ صرف قانون بدلنے سے نابالغ کے جرائم میں کمی نہیں آئے گی،اس کیلئے سماج کو بھی بدلنا ہوگا،انہیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!