عدلیہ کی مختاری بھی بنی رہے اور آئین کے مطابق سسٹم ہو!
پچھلے کچھ دنوں سے بڑی عدالتوں کے ججوں کی تقرری کو لیکر ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔ حکومت چاہتی ہے ججوں کی تقرری کیلئے جو موجودہ سسٹم ہے جیسے ہم کولیجیم کہتے ہیں ، اس میں کچھ تبدیلیاں کی جائیں۔ سرکار کا ارادہ ہے کہ موجودہ سسٹم کو بدل کر ایک جوڈیشیل کمیشن کے ذریعے تقرریاں کی جائیں۔ سلکشن کرنے والوں میں صرف جج نہ ہوں بلکہ عدلیہ کے باہر سے بھی نامور شخصیات کو بھی لیا جائے۔ ابھی تک جو سسٹم ہے یعنی کالیجیم میں عدلیہ کے بڑے عہدوں یعنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی تقرری و تبادلے کا تعین کرنے والا ایک فورم ہے۔ یہ عمل 1998 سے نافذ العمل ہے۔ حکومت نے کالے قانون کو بدلنے کیلئے قانون میں ترمیم کرنے کی تجویز بھی پارلیمنٹ میں پیش کردی ہے۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے پیر کے روز کالیجیم سسٹم ختم کر تقرری کا نیا نظام نافذ کرنے کے لئے قومی جوڈیشیل تقرری بل لوک سبھا میں پیش کیا۔ انہوں نے کمیشن کوآئینی درجہ دینے کے لئے آئینی ترمیم بل بھی پیش کیا۔ پرساد نے بل پر عام رائے بنانے کے لئے سبھی پارٹیوں کو خط بھی لکھا ہے۔ اس ترمیمی بل کے مطابق بھارت کے چیف جسٹس این جے اے سی کے چیف ہوں گے۔ عدلیہ کی نمائندگی سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں کے ذریعے کی جائے گی۔ دو جانی مانی ہستیوں کا چناؤ بھارت کے چیف جسٹس، وزیراعظم، لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر یا نچلے ایوان میں سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر کے کولیجیم کے ذریعے کیا جائے گا۔ یہ نظریہ موجودہ مودی سرکار کے سامنے نہیں آیا ہے۔ یوپی اے سرکار بھی کچھ ایسا ہی ارادہ رکھتی تھی اور اس نے اپنی طرف سے پہل بھی کی تھی جس سے وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائی۔ اس تبدیلی کی تجویز کی سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس آر۔ ایس لوڈھا نے مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے موجودہ کولیجیم سسٹم اچھی طرح سے کام کررہا ہے اور اس پر سوال اٹھانے سے پہلے لوگوں کا عدلیہ پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ چیف جسٹس لوڈھا نے یہ کہہ کر بحث کو اور طول دینے کا کام کیا ہے کہ عدلیہ کو بدنام کرنے کے لئے گمراہ کرنے والی مہم چلائی جارہی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہان کا اشارہ کس طرف ہے لیکن شاید وہ ان انکشافات کے سلسلے میں اپنی بات کہہ رہے تھے جو سپریم کورٹ کے ہی سابق جج مارکنڈے کاٹجو کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے مارکنڈے کاٹجو ایک کے بعد ایک ایسے انکشافات کررہے ہیں جو عدلیہ کی ساکھ پراثر ڈالنے والے ہیں۔ ان کی مانیں تو سپریم کورٹ کے کئی سابق جج کرپٹ ساکھ اور مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث ججوں کے خلاف ویسی کارروائی نہیں کی جیسے انہیں امید تھی۔ حالانکہ ان کے انکشافات پر یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ آخر وہ اتنے دنوں کے بعد پرانے معاملوں کو کیوں اچھال رہے ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کے الزامات کو بے بنیاد بھی نہیں مانا جاسکتا۔ یہ بھی صحیح ہے کئی قانون داں نئے مجوزہ سسٹم کو صحیح نہیں مان رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ موجودہ کولیجیم سسٹم آئین میں ججوں کی تقرری کو لیکر بنایا گیا تھا۔ ان کی دلیل ہے کہ آئین کی دفعہ124 اور 217 کے مطابق بڑی عدالتوں میں ججوں کی تقرری بھارت کے چیف جسٹس ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر سینئر ججوں کی صلاح پر صدر محترم کریں گے یعنی سرکار کی صلاح پر ہی یہ تقرریاں وہ کریں گے۔ اس سے ظاہر ہے کہ تقرری کرنے کا اختیار حکومت کا ہے اور جج صاحبان اس میں صلاح دے سکتے ہیں۔ دوسری طرف بہت سے قانون داں نئے مجوزہ سسٹم کو صحیح نہیں مان رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کچھ ٹھوس بنیاد بھی ہے۔ ایک بنیاد تو مارکنڈے کاٹجو دستیاب کرا رہے ہیں اس کے علاوہ یہ بھی سامنے آچکا ہے کہ ماضی گذشتہ میں کئی اہل ججوں کو سپریم کورٹ میں سلیکشن نہیں مل سکا اور کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہوا۔ چیف جسٹس کا نظریہ کچھ بھی ہو اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کولیجیم سسٹم کی خامیاں سامنے آچکی ہیں۔ اس کی جگہ پر ایک جوڈیشیل کمیشن کی تشکیل کی جو پہل کی جارہی ہے اس سلسلے میں یہ خیال رکھا جانا چاہئے کہ ججوں کی تقرری کے معاملے میں سرکار کا رول زیادہ نہ ہو پائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے توایک خامی سے دوسری خامی کی طرف بڑھنے والی بات ہوگی۔ جب ہم تمام جمہوری اداروں کی صاف گوئی اور جوابدہی کی مانگ کرتے ہیں تو جج بھی اس میں شامل ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ عدلیہ کی مختاری بنی رہے اور آئین کے مطابق سسٹم بھی بنا رہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں