مودی کاخواب تو پورا ہوا پر عوام کے سپنے ؟

اس سال 15 اگست یعنی یوم آزادی تقریب ہر سال سے منفرد ہوگی یہ ایک معمولاتی نہیں ہے۔ عام طور پر15 اگست کو دیش بھر میں ایک چھٹی کی طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور اس کی اہمیت کم ہوتی گئی۔بس وہی لال قلعہ کی سفیل سے وزیر اعظم کی تقریر۔ پچھلے10 سالوں سے ہم سردار منموہن سنگھ کی تقریریں سن سن کربور ہوگئے تھے لیکن اس سال تھوڑا فرق ہے کیونکہ آج 15 اگست کو نریندر مودی اپنی زندگی کی پہلی یوم آزادی تقریر کریں گے۔مسٹر مودی کو طویل انتظار کرنے کے بعد یہ موقعہ آیا ہے۔ 15 اگست کو لال قلعہ کی سفیل سے دیش کے نام اپنی تقریر میں کیا کہتے ہیں، کیا نئے اعلان کرتے ہیں دیش کے لوگ بے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔ مودی کی این ڈی اے سرکار کے سامنے چیلنج منہ پھاڑ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ 26 مئی کو وزیر اعظم کی حلف برداری کے بعد مودی کی یہ دیش کی عوام کے نام پہلی اہم تقریر ہوگی اور ظاہر سی بات ہے کہ اس موقعہ پر وہ اپنے کارناموں کو گنانا چاہیں گے۔ ٹیم مودی نے یہ صاف کردیا ہے کہ وہ ٹوئنٹی ۔ٹوئنٹی نہیں بلکہ وہ ٹیسٹ کے لئے اتری ہے۔ایک طاقتور اور خوشحال بھارت اور اچھے دنوں کیلئے بہر حال کچھ انتظار کرنا ہوگا۔ کام شروع ہوچکا ہے مہنگائی، بجلی پر اٹھ رہے سوالات کے تشفی بخش جوابات کا انتظار ہے۔ مودی سرکار کا دعوی ہے کہ حکومت نے اس سمت میں کام شروع کردیا ہے اور ایک برس میں اچھے دنوں کی مضبوط آہٹ سنائی پڑنے لگے گی۔ لوک سبھا چناؤ کے بعداقتدار میں آئے مودی کو 10 سال کی یوپی اے سرکار کی ناکامیوں اور مسائل سے بھی لڑنا پڑ رہا ہے۔ منموہن سرکار نے اتنے گڈھے کھود دئے ہیں کہ انہیں بھرنے میں وقت لگے گا۔ دیش کے سامنے کرپشن ایک بڑا چیلنج ہے۔ مودی سے عوام کوامید ہے کہ وہ اس پر کچھ لگام لگائیں گے۔ سابقہ حکومتوں کے دوران گھوٹالوں سے دیش کی کافی کرکری ہوچکی ہے۔ سرکاری دفاتر میں کرپٹ طریقے اپنائے بغیر کام نہیں ہوتا ایسے میں حکمرانی سسٹم کو شفاف بنانا ہوگا۔ مودی نے اس سمت میں کچھ اہم قدم اٹھائے ہیں اور کچھ کی ضرورت ہے۔ جرائم اور خراب قانون و نظام نے بھی عوام کا جینا مشکل کردیا ہے۔آبروریزی عورتوں کے خلاف جرائم مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔ مہنگائی کی بڑھتی سطح سے عام آدمی پریشان ہے۔ گرہستنوں کو گھر چلانا مشکل ہورہا ہے۔ عواممیں مہنگائی کو لیکر ہائے توبہ مچی ہے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مودی سرکار ابھی تک اس مورچے پر کامیاب ہوتی نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ ضروری چیزوں کے دام تو پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ بڑھتی افراط زر کے ساتھ ہی اقتصادی ترقی میں کمی سے مہنگائی سے دیش لڑرہا ہے۔بھارت میں 15 سے29 برس کی عمر کے28 کروڑ نوجوانوں کی آبادی ہے ہر طرح کے سروے بتا رہے ہیں بھارت میں بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مودی سے سب سے زیادہ توقعات اگر کسی طبقے کو ہے وہ نوجوان ہیں۔ مودی نے اپنی چناؤ کمپین میں سب سے زیادہ اسی طبقے کو راغب کیا تھا اور بڑی بڑی امیدیں جگائی ہیں۔ مودی نوجوانوں کو کہتے رہے ہیں کہ وہ اپنے سنہرے مستقبل کیلئے انہیں ووٹ دیں۔ اس طبقے نے چناؤ میں کھل کر ووٹ دیا اور اب مودی کے اپنے وعدے پورے کرنے اور نوجوانوں کے خوابوں کی تعبیر کرنے کا وقت آگیا ہے۔ دیکھیں کہ وہ آج لال قلعہ سے اپنی تقریر میں اس برننگ اشو کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ نوجوانوں کیلئے اگلے دو تین برس کافی اہم ہوں گے کیونکہ اس میعاد میں ان کے مستقبل کی سمت طے ہونی ہے۔ دیش کے کئی حصوں میں نکسلی مسئلہ منہ پھاڑے کھڑاہے۔ یہ مسئلہ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ دوسری طرف سرحد پار سے دہشت گرد وں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ پاکستان کے ذریعے مسلسل سرحد پر فائرنگ ہورہی ہے۔ ہمارے جوان مر رہے ہیں یا زخمی ہورہے ہیں۔ اس بات کا اطمینان ہے کہ حال ہی میں مودی کشمیر گئے تھے اور وہاں سے انہوں نے پاکستان کو کھری کھوٹی سنائی۔ دیش کے اندر انڈین مجاہدین جیسی آتنک وادی تنظیموں کی سرگرمیاں چنوتی ہے۔ ان دونوں تینوں مسائل سے لڑنے کے لئے مرکز اور ریاستوں کے درمیان بہتر تال میل کی ضرورت ہے۔ مودی نے دہشت گردی اور نکسلواد کا سامنا کرنے کے لئے عدم برداشت کی حکمت عملی اپنانے کی بات کہی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے خواتین پر جس طرح سے حملے اور جنسی جرائم ہورہے ہیں ، ان کے خلاف ٹھوس کارروائی کی سخت ضرورت ہے۔ صرف بیان بازی سے کام نہیں چلے گا فوراً کارروائی اور انصاف کی سمت میں کچھ ٹھوس قدم اٹھانے ہوں گے۔ دیش میں صرف دو ریاستیں ہیں جہاں ابھی 24 گھنٹے بجلی ملتی ہے ایک گجرات اور دوسرا کسی حد تک چھتیس گڑھ ہے۔ ہماچل میں بھی بجلی کی اتنی پریشانی نہیں ہے۔ دیش کے ہزاروں گاؤں ایسے ہیں جہاں بجلی پہنچتی ہی نہیں گاؤں تو دور دیش کی راجدھانی دہلی میں بجلی کٹوتی میں جنتا کے ناک میں دم کردیا ہے۔ دیش کی تقریباً سبھی ریاستوں میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت قابل رحم ہے۔ ضلع ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ زیادہ تر میں دواؤں کی سپلائی نہیں ہے۔ مجبوری میں لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں میں جاتے ہیں اور انہیں وہاں لٹنا پڑتا ہے۔ میں نے دیش کی کچھ برننگ پریشانیوں کا اس لئے تذکرہ کیاکیونکہ وزیر اعظم سمجھیں گے کہ عوام کی ان سے کیا کیا توقعات ہیں۔15 اگست یعنی آج مودی جی دیش کوخطاب کریں گے ہم اپنے سبھی دیش واسیوں کو یوم آزادی کی مبارکباد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جلد ہی اچھے دن آئیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟