دہلی میں ای رکشہ کے فائدے نقصان اور حل ضروری!

اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ ای رکشہ چلنے سے دہلی کی جنتا کوفائدہ تو ہوا لیکن ان سے ہونے والے نقصان کو ختم کرنے کیلئے سخت قواعد بنانے کی ضرورت ہے۔ایک ای رکشہ پر ڈرائیور کے ساتھ 4 سے5 (کبھی کبھی) اس سے زیادہ لوگ سوار ہوتے ہیں لیکن خراب کوالٹی والے رکشہ اتنا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور ایسے میں سڑک حادثوں کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ کئی رکشہ والے تو پورے کنبے کو(7-8 لوگوں کو) بھی بٹھا لیتے ہیں۔ اب تو یہ مال کی ڈھلائی میں بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔ ای رکشہ چلانے پر کہیں بھی روک نہیں ہے۔ مین روڈ پر یہ ٹریفک جام کرتے ہیں تو تنگ گلیوں میں چلنے سے وہاں بھی ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ای رکشہ کا فی الحال کوئی رجسٹریشن نہیں ہے اور نہ ہی انہیں چلانے کے لئے ڈرائیور کو لائسنس لینا ضروری ہے۔ ان کے روٹ بھی طے نہیں ہوتے۔ زیادہ تر ای رکشہ منمانی ڈھنگ سے اپنی مرضی سے مختلف روٹوں پر چلتے ہیں اور اس سے ٹریفک قواعد کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی ہے۔ کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ چالان نہیں ہوسکتا۔ ای رکشہ کا بیمہ بھی نہیں ہوتا۔ ایسے میں سڑک حادثے میں بیمہ کمپنی سے کلیم نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف ای رکشہ سے کئی فائدہ بھی ہوئے ہیں۔ ان میں تیز لائٹ بھی نہیں ہوتی ۔ خاص طور پر میٹرو اسٹیشن کے آس پاس علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو اسٹیشن پہنچانے میں بھی یہ دوڑ رہے ہیں۔ جس دوری کے لئے سائیکل رکشہ 30-40 روپے ،آٹو رکشہ80 روپے لیتا ہے ، اسی دوری کے لئے ای رکشہ 10 روپے فی سواری سے کام چل جاتا ہے۔ حالانکہ کبھی کبھی دوسری سواریوں کے بیٹھنے کے لئے انتظام بھی کرنا پڑتا ہے۔ دہلی میں 1 لاکھ سے زیادہ ای رکشہ چلتے ہیں۔ فی الحال ان پر عدالت نے عارضی روک لگائی ہوئی ہے مگر ان رکشاؤں کے بند ہونے سے 1 لاکھ پریواروں کی روزی روٹی خطرے میں پڑ گئی ہے جن کی پرورش اس کی آمدنی پر منحصر ہے۔60 ہزار سے 1 لاکھ روپے میں ملنے والے اس ای رکشہ کو خرید کر یا فائننس کراکر بڑی تعداد میں دہلی کے بے روزگار کام پر لگ گئے ہیں۔ دعوی یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ای رکشہ کے چلنے کے بعد بے روزگاری کم ہونے میں مدد ملی ہے۔ کل ملا کر ہم دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق ہیں۔ بغیر قاعدے قانون کے ای رکشہ چلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت کا کہنا ہے بغیر رجسٹریشن ، بیمہ، ڈرائیونگ لائسنس کے رکشہ چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جسٹس بی۔ڈی۔ احمد اور جسٹس سدھارتھ مردل کی ڈویژن بنچ کے سامنے مرکزی سرکار کی طرف سے کہا گیا ہے کہ 50 ہزار رکشہ مالکوں کی روزی روٹی کا سوال ہے تو عدالت نے جواب میں کہا دوسری طرف ای رکشہ میں بیٹھنے والے لوگوں اور سڑک پر چلنے والے لوگوں کی زندگی کا بھی سوال ہے جو ان رکشاؤں کی وجہ سے خطرے میں پڑتی ہے۔ مرکزی سرکار نے سماعت کے دوران ڈرافٹ گائڈ لائنس بھی پیش کی ہیں جس کے تحت بتایا گیا ہے کہ ای رکشہ کو موٹر وہیکل ایکٹ کے تحت لایا جارہا ہے۔ ای رکشہ کی زیادہ سے زیادہ اسپیڈ25 کلو میٹر فی گھنٹہ رکھی گئی ہے۔ ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ سواری 4 ہونی چاہئے اور لوڈ50 کلو رکھنے کی بات ہے۔ وزارت ٹرانسپورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ گائڈ لائنس کو پوری طرح تیار کرنے میں دو مہینے لگیں گے۔ تب تک ان کو چلانے پر لگی پابندی ہٹنی چاہئے۔ اب دیکھتے ہیں مسئلے کا کیا حل نکلتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟