کھرکھودا گینگ ریپ تبدیلی مذہب میں نیا موڑ، آخر سچائی کیا ہے؟

تھانہ کھوکھودا علاقے کے گاؤں سرابہ کی ایک لڑکی کے ساتھ ہوئی اجتماعی آبروریزی و تبدیلی مذہب کے معاملے میں جنگ سڑک سے لیکر پارلیمنٹ تک پہنچ گئی ہے وہیں اس معاملے میں روز ایک نئی کہانی سامنے آرہی ہے۔ اترپردیش سرکار نے مرکز کو جو رپورٹ بھیجی ہے اس میں لڑکی کے اغوا کی بات کیوں نکال دی گئی ہے جبکہ معاملے کا خلاصہ کرنے کا دعوی کرتے ہوئے پولیس نے لڑکی کا زبردستی تبدیلی مذہب سے انکارکیا ہے۔ جمعہ کو میرٹھ کے ایس ایس پی نے آناً فاناً میں بلائی پریس کانفرنس میں اجتماعی آبروریزی تبدیلی مذہب کی کہانی مسترد کرنے کیلئے کریم نام کے ایک کردار کو جوڑا تو متاثرہ کے وکیل نے لڑکی کے کورٹ میں دئے گئے بیان کی تصدیق شدہ کاپی میڈیا کو دستیاب کرادی۔ پولیس کے مطابق جہاں کریم اسے آپریشن کرانے کیلئے لے گیا تھا وہیں لڑکی نے کورٹ میں دئے اپنے بیان میں کہا کہ اس کے ساتھ اجتماعی آبروریزی ہوئی۔ کورٹ میں دئے گئے بیانوں میں جہاں اجتماعی آبروریزی میں شانو نام کے ایک لڑکے کی اینٹری ہوئی ہے تو پولیس نے کلیم کو اس کانڈ میں نئے شکار کے طور پر پیش کردیا۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہی شخص ابھی تک نہ تو ایف آئی آر میں تھے اور نہ ہی ان کے رول پر پولیس نے کوئی جانچ کی تھی۔ اس طرح یہ معاملہ پیچیدہ ہوگیا ہے کیونکہ پولیس نے تبدیلی مذہب کی تھیوری کو مسترد کردیا۔ کریم کو سامنے لاکر اغوا کی تھیوری بھی مسترد کردی۔ پولیس جسے بنیادی ملزم بتا رہی تھی وہ ثناء اللہ حرف حافظ نام کا شخص، کورٹ میں دئے گئے بیان کی بنیاد پرصرف اس کے پرائیویٹ حصے سے چھیڑ چھاڑ کرنے والا اور اجتماعی آبروریزی و اغوا میں ساتھ رہنے والا ایک ساتھی ملزم ثابت ہوتا ہے۔ تبدیلی مذہب کے اس معاملے میں متاثرہ لڑکی کا اغوا نہیں ہوا تھا۔ جس دوران اس کے اغوا کی بات کہی جارہی تھی اس وقت وہ میرٹھ میڈیکل کالج میں بھرتی تھی۔ اس بات کی تصدیق لڑکی کے بیان و میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں سے ہوچکی ہے۔ یہ ثبوت اس رپورٹ میں شامل ہیں جو ریاستی سرکار نے جمعہ کو مرکز کو بھیجی ہے۔ جمعہ کو لکھنؤ کے میڈیکل سینٹر میں ہوم سکریٹری کمل سکسینہ نے کہا کہ لڑکی کے والد نے پہلے 31 جولائی کو گمشدگی کی اطلاع دی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کی بیٹی 20 جولائی سے لاپتہ ہے۔ ہوم سکریٹری نے بتایا کہ لڑکی کے والد نے اس کے بعد3 اگست کو مقدمہ درج کرایا کہ ان کی بیٹی 23 جولائی سے لا پتہ ہے۔ اس میں اغوا کا اندیشہ ظاہر کیاگیا ہے۔ سکسینہ کا کہنا ہے کہ لڑکی نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ کریم نام کے ایک شخص کے ساتھ 23 جولائی کو میرٹھ میڈیکل کالج میں بھرتی ہوئی تھی جہاں اس کا آپریشن ہوا اور وہ کچھ دنوں تک ہسپتال میں بھرتی رہی۔ ہوم سکریٹری نے بتایا جانچ پڑتال میں سامنے آیا ہے کہ لڑکی غلط نام سے کھرکھودا کے باشندے کریم کی بیوی بن کر ہسپتال میں داخل ہوئی تھی۔اس متاثرہ لڑکی نے قبول کیا ہے کہ ہسپتال میں لڑکی کے ساتھ کریم کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ ایسے میں اگر اس کا اغواہوا ہوتا تو وہ شور شرابہ کر سکتی تھی۔ پولیس نے یو ٹرن لیتے ہوئے میڈیا کے سامنے دعوی پیش کیا کہ لڑکی کو نہ تو مدرسے میں اور نہ ہی مظفر نگر میں لایا گیا تھا بلکہ وہ خود کریم کے ساتھ میرٹھ کے لالہ لاجپت رائے میڈیکل کالج گئی تھی جہاں اس کا آپریشن کر اس کی فیلو پن ٹیوب نکالی گئی کیونکہ وہ حاملہ تھی اور بچہ فیلو پن یو ٹیوب یعنی بچے دانی میں پھنسا ہوا تھا جس سے اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ سوال اٹھتا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کی کونسی کہانی سچی ہے؟ اگر نئی کہانی سچ ہے تو پھر اب تک جیل بھیجے گئے ملزم کیا بے قصور ہیں؟ تبدیلی مذہب کے کاغذات تیار کرنے میں جیل بھیجے گئے وکیل اور نوٹری کو بھی جیل بھیجا جاچکا ہے۔ کریم نام کا شخص کون ہے اور اسکا متاثرہ لڑکی سے کیا رشتہ ہے؟ پولیس کی کہانی سامنے آنے کے بعد اس کانڈ کا سب سے اہم دستاویز متاثرہ کا کورٹ میں دیا گیا بیان ہے جس کی بنیاد پر قانونی طور پر الزام طے ہوتے ہیں کیونکہ عدالت مانتی ہے پولیس کو دئے گئے بیان دباؤ میں یا بہلا پھسلا کر یا پھر پولیس کی من گھڑت کہانی ہوسکتی ہے۔ کھرکھودا کے اس معاملے میں سچائی کیا ہے؟ شاید عدالت کی سچائی کو سامنے لا سکے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟