ڈاکٹر کملا بینی وال کی برخاستگی پر مچا وبال!
ا س میں کوئی شک نہیں کہ مودی سرکار اب کانگریس کے خلاف حملہ آور موڈ میں آگئی ہے۔ اس کی ایک مثال ہے میزورم کی گورنر کملا بینی وال کی برخاستگی۔ کانگریس اسے بدلے کی بھاؤنا بتا رہی ہے تو سرکار نے صفائی دی ہے کہ انہیں آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہٹایا گیا ہے۔ بینی وال کی مدت کارمحض دو مہینے بچی تھی۔ پہلے انہیں گجرات سے ہٹایا گیا اور اب انہیں میزورم سے برخاست بھی کردیا گیا ہے۔ اپوزیشن نے شکروار کو پہلے سنسدمیں اس مدعے کو اٹھانے کے بارے میں سوچا لیکن وزیر قانون روی شنکر پرساد نے سنسد کے باہر اپوزیشن لیڈروں کوبینی وال کی فائل کے اہم حصے دکھادئے۔ان پر سنگین الزام لگے ہیں۔ عزت مآب راشٹرپتی پرنب مکھرجی نے فائل پر ہاتھ سے لکھا ہے کہ پیش ثبوتوں سے میں مطمئن ہوں اور انہیں دیکھنے کے بعد میں انہیں برخاست کرنے کی سفارش کو منظور کرتا ہوں۔ بینی وال دراصل راجستھان کی کانگریسی نیتا رہی ہیں۔وہ پچھلے45 سال سے وہاں کانگریس کی ہر سرکار میں منتری رہی ہیں۔انہوں نے کسانوں کو سستی شرح پر زمینوں کی الاٹمنٹ میں جھوٹا حلف نامہ دے کر ایک ایکڑ زمین ہتھیالی۔ جے پور میں اس حلف نامے میں بینی وال نے لکھا ’میں 14 سے 16 گھنٹے اس زمین پر محنت کرتی ہوں ‘ جبکہ اس دوران وہ راجستھان کی منتری رہیں۔ معاملے میں مقامی کورٹ نے پولیس کوجانچ کے احکامات دئے تھے اور معاملہ عدالت میں چل رہا ہے۔ اب جب وہ گورنر نہیں رہیں ممکن ہے کہ عدالت اس کیس میں انہیں سمن کرے۔گجرات میں گورنر رہتے ڈاکٹر کملا نے سرکار جہاز کا نجی سفر کیلئے استعمال کیا۔ وہ 2011 سے2014 کے درمیان 63 بار راجیہ کے سرکاری جہاز سے گئیں۔ ان میں 63 بار تو جے پور کا سفر تھا اور 9 بار دہلی۔ اس پر 8.5 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی سے ان کے زبردست اختلافات تھے۔ مودی نے انہیں ہٹانا تو تھا ہی ،بس موقعہ مل گیا اور انہوں نے اپنا داؤں چل دیا۔جب ڈاکٹر کملا گجرات کی گورنرتھیں تو مودی سے مشورہ کئے بنا اپنے دائرہ اختیار سے باہر جاتے ہوئے اگست2011ء میں جسٹس اے۔مہتہ کو گجرات کا لوک آیکت بنایا۔ ریاستی سرکار نے اسے ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ میں چنوتی دی۔ حالانکہ بعد میں مہتہ نے خود ہی عہدہ سنبھالنے سے انکار کردیا۔ لوک آیکت تقرری تنازع کے بعد گجرات سرکار نے نیا ایکٹ پاس کیا۔ اس میں لوک آیکت کی تقرری کے لئے مکھیہ منتری کی صدارت میں پانچ ممبری کمیٹی کا بندوبست کیا گیا،ڈاکٹر کملا نے اسے منظور نہیں کیا۔ گجرات سرکار نے ایک ہی ایکٹ میں ووٹنگ کو لازمی کرنے اور خواتین کو50 فیصد ریزرویشن کی منظوری دی لیکن ڈاکٹر بینی وال نے ایکٹ کو لوٹادیا۔ ریاستی سرکارکو کہا کہ الگ الگ قانون لائیں۔ ڈاکٹربینی وال صدر جمہوریہ کی نمائندہ کم اور کانگریس کے سیاسی ایجنڈے کو بڑھانے میں زیادہ لگی رہیں۔ اس کے علاوہ جولائی میں گجرات کے چیف سکریٹری نے مرکز کو بینی وال کے خلاف شکایتوں کی لمبی فہرست بھیجی تھی۔ ہمارا آئین گورنروں کی تقرری اور برخاستگی کی طاقت صدر جمہوریہ ہند کو دیتا ہے۔ آج کانگریس اپنے ہی چنے گئے صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کی طاقت پر سوال کھڑا کررہی ہے۔صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کی نہ تو نیت پر شک کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سیاسی قابلیت پر۔ جب وہ کملا بینی وال کے خلاف پیش ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ میں مطمئن ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ ثبوتوں میں اتنا دم ہے کہ کملا بینی وال کی برخاستگی شخصی بدلے کی بھاونا سے کی گئی کارروائی نہیں ہے۔ جیسا میں نے کہا کہ نریندر مودی کو بہانا چاہئے تھا اور جب انہیں یہ مل گیا تو انہوں نے اپنا داؤ چل دیا۔المیہ دیکھئے کہ جس مبینہ انداز کو لیکر بھاجپا سپریم کورٹ گئی تھی کانگریس کے ذریعے این ڈی اے گورنر کی برخاستگی کو لیکر آج وہ کانگریس اسی سپریم کورٹ کے فیصلے کی دہائی دے رہی ہے۔ مودی سرکار کو پورا حق ہے کہ وہ ڈاکٹر کملا بینی وال کو برخاست کرے۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آج کانگریس اسے سنسد میں نہیں سنسد کے باہر رونے کا ناٹک کررہی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں