چلو بلاوا آیا ہے ،اوبامہ نے بلایا ہے!

بھارت میں نئی سرکار کو بنے ابھی مشکل سے ڈیڑھ مہینہ ہوا ہے اور نئے نظام کے آنے کے بعد بھارت میں شروع ہوئی اقتصادی ہلچل میں حصہ داری کے امکانات تلاشنے میں دنیا کے بڑے دیش پیچھے نہیں چھوٹنا چاہتے لہٰذا محض6 ہفتے پرانی مودی سرکار سے رابطہ بنانے کے لئے امریکہ، چین ، روس ،فرانس ،سنگاپور سمیت کئی ملک اپنے نمائندے بھیج کر وزیر اعظم نریندر مودی کے وکاس کے ایجنڈے کو اشتراک کا ارادہ ظاہر کرچکے ہیں۔ ساتھ ہی جاپان، چین، جرمنی اور امریکہ مودی کو اپنے اپنے ملکوں کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ستمبر میں امریکہ دورہ کرنے کے لئے باقاعدہ دعوت بھجوادی ہے۔ مودی کو اوبامہ کا دعوت نامہ امریکہ کے نائب وزیر خارجہ ولیم برنس نے تب دیا جب انہوں نے یہاں مودی سے ملاقات کی۔ وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جمعہ کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اوبامہ نے اپنے خط میں مودی کو ستمبر میں واشنگٹن دورہ کرنے کے لئے اپنا دعوت نامہ دوہرایا ہے اورصاف یہ بھی کہا کہ وہ بھارت ،امریکہ کے رشتوں کو 21 ویں صدی کے ایک فیصلہ کن سانجھیداری کی شکل دینے کے لئے ان کے ساتھ قربت کے ساتھ کام کرنے کے لئے خواہشمند ہیں۔ مودی نے یہ دعوت نامہ فوراً قبول کرتے ہوئے اوبامہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ستمبر میں نتائج آمیز سفر کا انتظار رہے گا۔ ہماری رائے میں شری نریندر مودی کو امریکی صدر کا دعوت نامہ فوراً قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ پچھلے9 برسوں سے یہی امریکہ نریندر مودی کو ویزا نہ دیکر بے عزت کرتا رہا ہے۔ اب ان کے وزیر اعظم بنتے ہی امریکی حکام کا ہندوستان آنا جانا اتنا تیز ہوگیا۔ براک اوبامہ امریکہ سے بھارت کے اچھے تعلقات ہونے چاہئے تھے اس لحاظ سے مودی کا پہلا امریکہ دورہ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ جو دورہ ہورہا ہے یہ امریکی دورہ نہیں۔ ستمبر میں ویسے بھی مودی کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں جانا تھا۔ وہاں سے وہ اب واشنگٹن جائیں گے تو یہ دورہ اتفاقاً ہوگا کیونکہ نیویارک تو جانا ہی ہے اس لئے چلو واشنگٹن بھی گھوم آئیں؟ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے امریکہ ایک بہت خودغرض ملک ہے۔ تھوک کے چاٹنے میں انہیں کوئی پرہیز نہیں۔ آج بھارت امریکہ کیلئے ایم(مودی) مجبوری بن گیا ہے۔ بھارت کے وسیع بازارکو امریکہ نظرانداز نہیں کرسکتا۔ امریکہ میں یہ بھی بے چینی ہورہی ہوگی کہ برطانیہ، جاپان، جرمنی سبھی بھارت کو پٹانے میں لگے ہیں۔ ایسے میں امریکہ پیچھے نہ چھوٹ جائے اس لئے اوبامہ نے آناً فاناً میں دعوت دے دی۔ بات بھارت کے ضمیر کی ہے۔ پچھلے دس سال میں ہم نے دیکھا کس طرح منموہن سنگھ سرکار امریکہ کی پچھل پنگو بن کر چلی۔ مودی سے دیش امید کرتا ہے کہ وہ بھارت کے ضمیر اور امریکہ کی مجبوری کو دھیان میں رکھ کر کوئی ایسا کام و سمجھوتہ نہیں کریں گے جو ملک کے مفاد کے خلاف ہوگا۔ کیا مودی پچھلے9 سالوں سے امریکہ کے ذریعے کی گئی بے عزتی کو اتنی جلدی بھول گئے؟ بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم امریکہ کو تھوڑا لٹکاتے۔ ان میں ان کی عزت بنی رہتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!