مستقل بڑھتے بلاتکار کے معاملے!

یہ ہمارے سماج کوکیا ہوگیا ہے؟بلاتکار کے اتنے حادثات ہورہے ہیں کہ سمجھ میں ہیں نہیں آرہا کہ اس پر روک کیسے لگے؟گذشتہ دنوں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ اعدادو شمار آئے ہیں جو چونکانے والے ہیں۔صرف ایک سال کے اندر ملک میں ریپ کے واقعات میں حیرت انگیز35.2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔2012ء میں جہاں ریپ کے 24923 معاملات درج کئے گئے تھے وہیں 2013ء میں بڑھ کریہ تعداد33707 ہوگئی۔ریاستوں کے حساب سے دیکھیں تو سب سے زیادہ بلاتکار کے واقعات مدھیہ پردیش میں ہوئے۔ وہاں2012ء کے 3425 کے مقابلے2013ء میں 4335 ریپ درج کئے گئے لیکن شہروں کے حساب سے دہلی اب بھی اول ہے۔ یہاں2012ء میں 706 ریپ کے واقعات درج ہوئے تھے جو 2013ء میں دوگنے سے بھی زیادہ بڑھ کر1636 ہوگئے۔آج کل تو ایسے معاملے سامنے آرہے ہیں کہ دل سن کردہل جاتا ہے۔ آخر ہم کس طرف جارہے ہیں۔ دہلی کے ویسٹ ڈسٹرکٹ کے ایک پارک میں محض7 سال کی بچے سی دن دہاڑے گین ریپ کا ایک سنسنی خیز معاملہ سامنے آیا ہے۔ شرمسار کرنے والی ان واردات کو انجام دینے والے بھی بچی کی عمر کے 3 لڑکے ہیں۔یہ بچی کو دسہری آم کھلانے کے بہانے لے گئے۔ الزام ہے کہ تینوں نے ریپ کے علاوہ اورل سیکس، ان نیچرل سیکس بھی کیا۔یہ واقعہ پشچم وہار کے میرا باغ کے نزدیک میرا پارک کا ہے۔بڑا پارک ہونے کی وجہ سے اس میں اندر کی طرف گھنا جنگل ہے۔ قریب سات سال کی بچی کا ریپ تین لڑکوں جن کی عمر9,12 اور14 سال کی ہے ، نے کیا۔ایک دیگر معاملے میں اتری دہلی میں 12 سالہ گھریلو نوکرکے ساتھ بدفعلی کے الزام میں پولیس نے ایک 77 سالہ بزرگ ٹرانسپورٹر کو گرفتار کیا ہے۔ ملزم بڑے ٹرانسپورٹروں میں شامل ہے وہ کئی ٹورسٹ بسوں کا مالک ہے۔ سبزی منڈی تھانے میں اس کے خلاف بدفعلی، پاسکو وجوئینائل ایکٹ وغیرہ معاملوں میں کیس درج کر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ دسمبر2012ء میں نرملا کانڈ کے بعد راجدھانی دہلی سمیت تمام بڑے شہروں میں جس طرح مظاہرے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ ہندوستانی سماج میں پہلے سے زیادہ بیداری آئی ہے لیکن اب ایک سا ل کے یہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ پہلے سے حالات زیادہ بدتر ہوگئے ہیں۔ راجدھانی میں بلاتکاریوں کے حوصلے بلند ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں نہ تو خاکی وردی کا کوئی ڈر رہا ہے نہ سماج میں بے عزت ہونے کا۔بیورو سے پتہ چلتا ہے کہ کل33707 میں سے31087 معاملوں میں بلاتکاری اور متاثرہ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں۔539 معاملوں میں ملزم خاندان کا ممبر تھا۔2315 واقعات میں وہ رشتے دار تھا اور 10782 معاملے ایسے رہے جن میں ملزم پڑوسی تھا۔ صاف ہے کہ انجانے لوگوں کے ذریعے ریپ کے واقعات15-16 میں ایک ہیں۔ زیادہ تر معاملوں میں لڑکیوں کی جان کے دشمن وہی ہیں جنہیں وہ الگ الگ روپ میں جانتی پہچانتی ہیں۔وزارت داخلہ کی ریاستی وزیرکرن رجیجو نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ اعدادو شمار کے مطابق گذشتہ سال درج بلاتکار کے 33707 معاملوں میں 42115 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ 37056 لوگوں پر الزام طے کئے گئے اور 6892 لوگوں کو ملزم ٹھہرایاگیا۔ انہوں نے بتایا کہ2013ء میں بلاتکار کے درج معاملوں میں مجرم ثابت کرنے کی شرح27.1 رہی۔ بہت سے معاملوں میں ریپ کی شکایت درج ہی نہیں ہوپاتی۔ لڑکی کو اپنی حوس کا شکار بنانے والے اس کے قریبی لوگ جرم کے بعد اسے دھمکاکر یا بہلا پھسلاکر اسے پولیس کے پاس بھی نہیں بھٹکنے دیتے۔ یہی وہ وجہ ہے جہاں یہ آنکڑے امید میں بدلتے نظر آتے ہیں۔ ریپ کے اعدادو شمار میں بڑھوتری اس بات کا اشارہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان مہلاؤں میں اپنے خلاف ہوئے ظلم کی شکایت درج کروانے کی ہمت آئی ہے لیکن بیشک سرکار، پولیس نے کئی قدم مہلاؤں کے تحفظ کیلئے اٹھائے ہیں پھر بھی جب تک ہمارے سماج میں بیداری نہیں آتی ان کی ذہنیت نہیں بدلتی تب تک یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔ 16 دسمبر2012ء کو نربھیا کانڈ ہوا تھا۔ اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی ملزموں کو سزا ابھی تک نہیں مل سکی۔ ہماری عدالتوں میں بھی بلاتکار کے ملزمین کو جلد سے جلد سزا دینے کیلئے مناسب تبدیلی کرنا ہوگی۔اس بار بلاتکاری کوپھانسی لگ جائے تب جاکر شاید ان بلاتکاریوں میں تھوڑا خوف پیدا ہو۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!