اگر ایل جی بھاجپا کو حکومت بنانے کیلئے بلاتے ہیں تو۔۔۔

دہلی میں حکومت بنے گی یاپھر اسمبلی چناؤ ہوگا؟ اس سوال پر سیاسی ہلچل تیز ہوگئی ہے۔ایک بات پکی ہے کہ کوئی بھی ایم ایل اے چاہے وہ بھاجپا کا ہو یا کانگریس کا یا عام آدمی پارٹی کا ہو،چناؤ نہیں چاہتا۔ وہ چناؤ کو ٹالنا چاہتا ہے اور اگر ممکن ہو تو سرکار بنانے کے حق میں ہے۔بی جے پی نے دہلی میں سرکار بنانے کے اشارے دئے ہیں۔ انتظار ہورہا ہے وزیر اعظم نریندر مودی کے برازیل سے لوٹنے کا۔ اب نریندر مودی وطن لوٹ آئے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ دہلی میں بھاجپا سرکار بنانے کو ہری جھنڈی دے دیں گے۔ حالانکہ ڈاکٹرہرش وردھن، نتن گڈکری جیسے پارٹی کے بڑے لیڈر اکثریت میں ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے سرکار بنانے کی پہل کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ میڈیا میں حالانکہ دو تین دن سے خبریں آرہی ہیں بھاجپا خیمے کی طرف سے سرکار بنانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ بھاجپا کے نئے پردیش پردھان ستیش اپادھیائے نے بدھوار کو کہا پارٹی کے ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ میٹنگ میں رائے تھی کہ اگر لیفٹیننٹ گورنر سرکار بنانے کیلئے بلاتے ہیں تو غور کیا جاسکتا ہے۔ ممبر اسمبلی اور ایم پی بھی سرکار بنانے کے حق میں ہیں۔ بغیر سرکار کے اس وقت دہلی ایک طرح سے لاوارث ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی جواب دینے والا نہیں۔ افسروں پر دہلی کا دارومدار ہے۔ میری رائے میں بھاجپا کو اب موقعہ نہیں چونکنا چاہئے۔ انہیں سرکار بناکردہلی کے عوام کو اس دلدل سے نکالنا چاہئے۔ اروند کیجریوال نے بھی ایک طرح سے بغیر اکثریت کے سرکار چلائی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اروند کیجریوال نے وزیر اعلی کے عہدے کو لات مار دی تھی۔ بھاجپا کے ذرائع کے مطابق کانگریس کے 8 میں سے6 ممبران سے دلبدل سیاست کے لئے سمجھداری بن گئی ہے۔ اگر کانگریس کے 6 ممبران اسمبلی پالا بدل لیتے ہیں تو بھاجپا جوڑ توڑ کی استادی دکھاکر آرام سے اکثریتی سرکار بنالے گی۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اقلیتی سرکار بھی بنانی پڑے تو بنا لینی چاہئے۔ دیکھیں گے بھاجپا کی اقلیتی سرکار کوگراکر کون چناؤ چاہے گا۔ ایک ہی شخص ہے جو چناؤ کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے، وہ ہیں کیجریوال۔ لیکن وہ دن لد گئے جب کیجریوال کو لوگ سنجیدگی سے لیاکرتے تھے۔ قابل غور ہے کہ پچھلے سال دسمبر میں ہوئے اسمبلی چناؤ میں پارٹی کو 70 میں سے31 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ ایک سیٹ بھاجپا کی اتحادی اکالی دل نے جیتی تھی لیکن لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کے تین ممبران اسمبلی لوک سبھا کے ممبر بن گئے تو اسمبلی میں ان کی تعداد گھٹ کر29 رہ گئی ہے۔ ایک ممبر اکالی دل کا ہے۔ ایسے میں بھاجپا کو محض پانچ اور ممبران اسمبلی کی حمایت چاہئے۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ کانگریس میں اروند سنگھ لولی، ہارون یوسف کو چھوڑ کر باقی سبھی ممبر اسمبلی سرکار بنانے کے لئے بے چین ہوگئے ہیں۔ پچھلے دو دن سے پردیش پردھان ستیش اپادھیائے پارٹی کے ممبران اسمبلی سمیت کئی بڑے لیڈروں سے تبادلہ خیالات کرتے آرہے ہیں۔ ذرائع کا دعوی ہے پارٹی لیڈر شپ نے نئے وزیر اعلی کے لئے سینئر لیڈر جگدیش مکھی کا نام بھی طے کرلیا ہے۔ادھر عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا کہ آپ کے کسی بھی ممبر اسمبلی کو خریدنے میں ناکام رہنے پر اب بھاجپا کانگریس کے 6 ممبران کو خریدنے کی کوشش کررہی ہے۔ قیمت20 کروڑ روپے۔ دو وزیر اور چار چیئرمین کی پیشکش کی ہے۔بھاجپا نے کیجریوال کے اس بیان پر ہتک عزت کا مقدمہ بھی کردیا ہے۔ کیجریوال نے تو ایل جی کی وفاداری پر بھی سوال اٹھا دیا ہے۔ کیجریوال کا دعوی ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر بھاجپا کو سرکار بنانے کے لئے بلا سکتے ہیں اور بھاجپا اس کو قبول کرلے گی۔ اب معاملہ بھاجپا پردھان امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے پالے میں ہے۔ قابل ذکر ہے فروری سے دہلی صدر راج لاگو ہے۔ یہاں پر49 دن کی سرکار چلا کر کیجریوال نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ دراصل بھاجپا نے سرکار بنانے کے لئے یو ٹرن اس لئے لیا کیونکہ اس کے سارے ممبران اسمبلی سرکار بنانے کے حق میں ہیں۔ مہنگائی بجلی، پانی جیسی بڑھتی پریشانیوں کے سبب آج دہلی کے باشندے کا دکھ درد کوئی بھی پوچھنے والا نہیں، حل کرنے والا نہیں۔ اگر اسمبلی ہوگی تو بہت ہی برننگ اشوز کا حل ممکن ہوسکتا ہے۔ لہٰذا دہلی میں سرکار بننی چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!