ہر حالت میں سونیا گاندھی کو چاہئے لیڈر اپوزیشن کا عہدہ!
لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے چھٹ پٹا رہی کانگریس کبھی صدر کے دربار میں پہنچ رہی ہے تو کبھی عدالت میں جانے کی بات کررہی ہے۔ ویسے کانگریس نے خانہ پوری کے طور پر لوک سبھا اسپیکر کے سامنے اپنی دعویداری پیش کردی ہے۔ لوک سبھا میں 10 فیصد سیٹ جیتنے میں ناکام رہی کانگریس نے اسپیکر کو 60 ممبران پارلیمنٹ کے دستخط والا ایک میمورنڈم دیا ہے لیکن اسپیکر کی عدالت میں اپنا دعوی پیش کرنے میں کانگریس کی جانب سے جو وقت لگا اس سے صاف ہے کانگریس کا کیس کمزور ہے۔ دراصل آزاد بھارت کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ55سیٹوں میں سے کم تعداد والی کسی سیاسی پارٹی کو لوک سبھا میں لیڈر اپوزیشن کا عہدہ حاصل ہوا ہو۔ چناؤمیں سب سے شرمناک کارکردگی کے بعد لوک سبھا میں لیڈر اپوزیشن کے عہدے کے لائق بھی حیثیت تو کانگریس بچا نہیں سکی پھر بھی وہ اس عہدے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالت تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پارلیمانی کمیٹیوں کے چیئرمین کے عہدے تک کیلئے کانگریس کو لابنگ کرنی پڑ رہی ہے۔ موجودہ44 لوک سبھا ممبران کے حساب سے کانگریس کے کھاتے میں لوک سبھا کے تین پارلیمانی کمیٹیوں کی چیئرمینی آتی ہے مگر لوک سبھا میں لیڈر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ چار پارلیمانی کمیٹیوں کی چیئرمین شپ کیلئے سرکار پر دباؤ بنا رہی ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلینے لوک سبھا میں لیڈر اپوزیشن کا عہدہ کانگریس کو دینے سے صاف منع کردیا ہے۔ کانگریس پارلیمانی تاریخ کو بھول رہی ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے عہد میں کسی اپوزیشن پارٹی کو یہ عہدہ حاصل نہیں ہوا۔ 1969 ء میں کانگریس کی تقسیم کے بعدکانگریس سے اوکے رام سمگر سنگھ کو یہ عہدہ پہلی بار 10 فیصدممبری کی بنیاد پر حاصل ہوا تھا۔ ابھی کانگریس اپنی دعویداری کے حق میں جس 1977 ایکٹ کا ذکر کررہی ہے اس میں لیڈر اپوزیشن کے بھتوں اور تنخواہوں کا تو ذکر ہے لیکن لیڈر اپوزیشن کے سلیکشن کے پیمانے کی تشریح نہیں ہے۔ پھر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر 1977ء کا ایکٹ حال ہی میں کانگریس کی دعویداری کی تصدیق کرتا ہے تو خود کانگریس نے 1980 اور1984ء میں بنی لوک سبھاؤ میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کو لیڈر اپوزیشن کا عہدہ کیوں نہیں دیا؟ مرکز میں مودی سرکار کے تاناشاہ رویئے سے ناراض کانگریس صدر سونیا گاندھی نے اپنے حکمت عملی سازوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے اپنی پوری طاقت جھونک دیں۔ اس کیلئے بھلے ہی پارلیمنٹ کے باہر انہیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہی کیوں نہ پڑے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا میں پارٹی کے ڈپٹی لیڈر آنند شرما کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اسپیکر صاحبہ ان کی مانگ پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گی۔ مسٹر شرما نے مودی سرکار پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ جمہوری تقاضوں کو توڑ مروڑنے پرتلی ہوئی ہیں اس لئے لوکپال، سی وی سی وغیرہ اہم عہدوں کی تقرری میں وہ اپوزیشن کو شامل نہیں کرنا چاہتیں تاکہ وہ اپنی مرضی اور اپنی منمانی چلا سکیں سرکار کی نیت میں کھوٹ ہے۔ کچھ ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارت جیسی بڑی جمہوریت میں لیڈر اپوزیشن کا عہدہ خالی نہیں ہونا چاہئے لہٰذا سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہونے کے ناطے سے کانگریس کو یہ عہدہ ملنا چاہئے۔ سرکاری طور پر اس دلیل میں دم تو نظر آتا ہے یہ بات تب جائز ہوتی جب کانگریس کے ممبروں کی تعداد دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے مقابلے بہت زیادہ ہوتی لیکن ایسا بھی نہیں کہ ابھی اگر 44 ممبران پارلیمنٹ والی کانگریس کو یہ عہدہ دیا جاتا ہے تو ایسا کرنا اس سے معمولی طور پر پیچھے رہی 37 ممبران پارلیمنٹ والی انا ڈی ایم کے اور34 ممبروں والی ترنمول کانگریس کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ اگر پھر بھی لیڈر اپوزیشن کی کرسی بھرنی ہے تو یہ اس پارٹی کو ملنا چاہئے جس میں سب سے زیادہ اپوزیشن ممبر ان کو حمایت حاصل ہو۔ اگر ضروری ہوا تو اس کے لئے اپوزیشن ممبروں میں پولنگ بھی کروائی جانی چاہئے۔ بیشک ایسی کوئی روایت نہیں رہی ہے لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ حالیہ برسوں میں کسی دوسری بڑی پارٹی کی حالت اتنی پتلی نہیں رہی۔ امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی یہ معاملہ سلجھ جائے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں