لوک سبھا کی تاریخ میں سب سے شرمناک واقعہ، ساکھ تار تار ہوئی!

جمعرات کو لوک سبھا میں جو کچھ ہوا اس نے پورے دیش کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ اگر اسے لوک سبھا کی تاریخ میں سیاح دن کہیں تو غلط نہ ہوگا ۔کیونکہ لوک سبھا میں ایسا بدنما داغ پہلے کبھی نہیں لگا۔ اسپیکر نے اس واقعے کو شرمناک اور دھبہ بتاتے ہوئے آندھرا پردیش کے 18 ممبران کو پانچ دن کے لئے معطل کردیا۔ ہوا یوں کہ صبح11 بجے ہی تلنگانہ بل کے احتجاج میں ایوان کی کارراوئی ٹالنی پڑی تھی۔ 12:09 پر وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے بل پیش کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو حالات بگڑ گئے اور تیلگودیشم کے ایم پی وینو گوپال ریڈی لوک سبھا سکریٹری جنرل کی کرسی پر چڑھ کر اسپیکر کی میز پررکھے کاغذات چھیننے لگے۔پیپر ویڈ اٹھا کر سکریٹری جنرل کی میز پر رکھا شیشہ توڑ دیا۔ الزام تو یہ بھی ہے کہ وینو گوپال نے چاقو لہرایا لیکن انہوں نے اس سے انکار کیا۔ کہا کہ ان کے ہاتھ میں ٹوٹا ہوا مائک تھا جو چاقو جیسا لگا ہوگا۔ کانگریس سے حال میں نکالے گئے ایم پی ایل۔ راج گوپال نے پھر چونکاتے ہوئے کالی مرچ اسپرے چاروں طرف چھڑکااور ایوان اور سامعین گیلری میں بیٹھے لوگوں کو کھانسی ہونے لگی۔ دم گھٹنے، آنکھوں میں جلن کی شکایت پر ڈاکٹروں کو بلانا پڑا۔ونے کمار پانڈے ، پونم پربھاکر اور وی بلرام نائک کو رام منوہر لوہیا ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں بعد میں انہیں تھوڑی تیمارداری کی بعد چھٹی دے دی گئی۔ دوپہر بعد 2 بجے کارروائی پھر شروع ہوتے ہی ہنگامہ شروع ہوگیا۔ اسپیکر نے 16 ممبران کو پانچ دن کے لئے معطل کردیا۔ اس میں کانگریس ، ٹی ڈی پی، وائی ایس آر کانگریس کے ایم پی شامل ہیں۔ جب اس شرمناک واقعہ کے لئے ٹی ڈی پی اور کانگریس کے ایم پی ذمہ دار ہیں تو وہاں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مرکز کی یوپی اے سرکار اور کانگریس پارٹی بھی اس شرمناک صورتحال کیلئے کم ذمہ دار نہیں۔ سمجھ میں نہیں آیا کیا سوچ سمجھ کر کانگریس اعلی کمان نے وزیر پارلیمانی امور کو اس بل کو پیش کرنے کو کہا ؟ تلنگانہ بل اور آندھرا پردیش کی تقسیم کو لیکر کئی دنوں سے احتجاج چل رہا تھا۔ خود کانگریسی وزیر اعلی اس کے خلاف دہلی میں دھرنے پر بیٹھ گئے تھے۔ آندھرا اسمبلی نے اس ریزولیشن کو مسترد کردیا تھا۔ ان حالات میں اس کو پیش کرکے کانگریس پارٹی نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ وہ کہاوت ہے نہ کہ’ چوبے گھئے چھببے بننے دوبے بن آئے‘ صحیح بیٹھتی ہے۔ اب کانگریس پارٹی کو دونوں طرف سے نقصان ہوگا۔ اس سے ایک اور بات ثابت ہوتی ہے کہ کانگریس اعلی کمان کی اپنے ممبران پارلیمنٹ پر پکڑ کمزورہوگئی ہے۔ پچھلے سات دنوں سے کانگریس کے سیماندھر و تلنگانہ علاقے کے ایم پی ہنگامہ کررہے ہیں اور کانگریس اعلی کمان ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے کترارہا ہے۔ وہ بھی ایسے وقت جب لوک سبھا کا آخری اجلاس چل رہا ہو۔ راہل گاندھی کے آدھا درجن بل پاس ہونے کیلئے لائن میں ہیں؟ پتہ نہیں اب یہ لوک سبھا ٹھیک ٹھاک چلے گی بھی یا نہیں اگر نہیں چلی تو سارے بل لٹک جائیں گے۔راہل کے کرپشن مخالف بل ممبران میں غیر تحفظ کا احساس ہے اب انہیں اس اجلاس کے باقی دنوں میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اپنے اپنے چناؤ حلقوں میں بلا تاخیر واپس جانا چاہتے ہیں۔ بہت سے ایم پی کو تو یہ پریشانی ستا رہی ہے پتہ نہیں کانگریس اعلی کمان اس بار ٹکٹ دیتا بھی ہے یا نہیں؟ کانگریس اعلی کمان کو اتنا معلوم تھا کہ یہ لوک سبھا کا آخری اجلاس ہے اور اہم بلوں کو پاس کرانے کے لئے آخری موقعہ ہے۔ بہتر یہ ہی ہوتا کہ وہ اپنی فلور مینجمنٹ کو اچھا کرتے۔ پہلے ہی دن 16 ممبران پارلیمنٹ کو معطل کرکے کم سے کم راہل کے اہم بل پاس کروالیتے؟ لگتا ہے کہ کانگریس کے فلور مینجمنٹ دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اب یہ بھی تنازعے کا اشو بن گیا ہے کہ آندھرا پردیش بل 2014ء پیش ہوا ہے یا نہیں۔ سرکار کہہ رہی ہے کہ بل پیش ہوگیا لیکن بھاجپا سرکار کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کررہی ہے۔ اس کا کہنا ہے چونکہ پارلیمانی تقاضوں کی تعمیل نہیں ہوئی ہے اس لئے اس بل کو پیش مانے جانے کو تسلیم نہیں کرتی۔ لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر پورے واقعے میں کانگریس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا جو کچھ ہوا وہ کانگریس کا ہی رچا رچایا ڈرامہ تھا کیونکہ کانگریس ایسا سسٹم پیدا کرنا چاہتی تھی جس سے سبھی ممبران لوک سبھا سے چلے جائیں اور تب وہ ایسا دعوی کرسکیں تلنگانہ بل پیش ہوگیا ہے۔ یہ پیش ہونے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے این سی پی کی لیڈر سپریا سلے نے کہا کہ انہیں کوئی پہلے سے فہرست نہیں دستیاب کرائی گئی اور نہ ہی ایوان کی کارروائی میں اسے شامل کیا گیا۔ جیسا میں نے کہا کہ بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں جمعرات کا دن ایک کالا دھبہ ہے جس میں پارلیمنٹ کا وقار تار تار ہوا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!