جس آئین نے کیجریوال کووزیر اعلی بنایا اسی کی دھجیاں اڑائیں!
دہلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال اور ان کے وزرا کا دھرنا ختم ہوگیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کیجریوال کا یہ دھرنا کامیاب رہا؟ ان کے حمایتیوں کی نظر میں تو یہ کامیاب رہا۔ انہوں نے یہ پیغام دینے میں کامیابی پائی کے دہلی پولیس کے طریق�ۂ کار میں اصلاح ہونی چاہئے اور دہلی کی جنتا دہلی پولیس کی گھوٹالے بازی سے کتنی ناراض ہے ان کے حمایتی کہہ رہے ہیں کہ دیکھا آپ نے کیجریوال خود رات بھر اتنی ٹھنڈ میں سڑک پر رہے ،وہ بھی جنتا کی خاطر۔ کچھ ہندی چینل سروے دکھا رہے ہیں کیجریوال کے دھرنے کو 80 فیصدی سے زیادہ لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنا ووٹ بینک برقرار رکھا ہے۔ ایسا بھی دعوی کیا جارہا ہے دہلی پولیس کو دہلی سرکار کے ماتحت لانے کی مانگ کی بھی جنتا نے پر زور حمایت کی ہے لیکن ایسا ان کے حمایتیوں کا خیال ہے۔ ہم معافی چاہتے ہیں کہ ہماری نظر میں تو وزیر اعلی کا دھرنا نہ صرف غلط تھا بلکہ انہوں نے ایسا کرکے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ جو اشو لیا تھا وہ غلط تھا۔ سارا جھگڑا دہلی سرکار کے وزیر قانون سومناتھ بھارتی کے ساتھ مالویہ نگر کے ایس ایچ او اور اے سی پی کے برتاؤ کو لیکر تھا۔ جس ڈھنگ سے سومناتھ بھارتی جو پیش سے وکیل بھی ہیں، قانون کے واقف کار ہوتے ہوئے بھی آدھی رات کو کھڑکی ایکسٹینشن میں افریقی عورتوں کو گرفتار کرکے کارروائی کی مانگ کررہے تھے وہ غلط تھی۔ بیشک وہ جو الزام لگا رہے تھے وہ ٹھیک ہوں لیکن رات12 بجے کسی بھی عورت کو اس طرح پولیس نہ گرفتار کر سکتی ہے نہ ہی ہمیں پولیس کو ایسی چھوٹ دینی چاہئے۔ سپریم کورٹ کی گائڈ لائنس بھی ہیں اور پھر ایک طرف تو ہم اس بات کی مخالفت کرتے ہیں کہ بے قصور لڑکوں کو آتنک وادی ہونے کے الزام میں پولیس جب چاہے اٹھا لیتی ہے۔دوسری طرف ہم خود ایسی حرکتوں کو بڑھاوا دیں کہاں تک صحیح ہے۔ کسی کو بھی گرفتار کرنے کے لئے پولیس کو صحیح طریقہ ، وقت اور ٹھوس ثبوت چاہئیں۔ ان کے تحت ہی وہ کارروائی کر سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیجریوال صاحب نے غلط جگہ کا انتخاب کیا۔یومیہ جمہوریہ کی پریڈ ہر برس لاجپت سے گزرتی ہے اور آس پاس کے علاقے کو سیل کردیا جاتا ہے۔ یہ پریڈ ہمیشہ سے دہشت گردوں کے نشانے پر رہی ہے۔ ایسے میں پولیس کی آتنک وادیوں پر نگاہ رہتی ہے ۔
مکھیہ منتری اروند کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کی وجہ سے سارا دھیان ان پر لگانا پڑا۔ چھوٹے چھوٹے بچے اتنی سردی میں ریہرسل کرنے آتے ہیں وہ بھی لاجپت تک نہیں پہنچ پاتے۔ دو دن تک میٹرو اسٹیشن بند رہے ،لاکھوں لوگوں کو پریشانی جھیلنی پڑی۔ اروند کیجریوال کے دھرنے کے دوسرے دن مشکل سے 100-200 ان کے کٹر حمایتی ہی ریل بھون پہنچے۔ جنتا کی حمایت ان کے ساتھ نہیں تھی۔ جس آئین کا حلف لے کر اروند کیجریوال وزیر اعلی کی کرسی پر بیٹھے اس کی ہی دھجیاں انہوں نے اڑادیں۔ جس سسٹم سے کیجریوال وزیر اعلی بنے اسی سسٹم کی بے عزتی کی۔ کیا کبھی یہ تصور کیا جاسکتا تھا کہ دیش کی راجدھانی دہلی کا وزیر اعلی دہلی پولیس کے ملازمین سے کہے کہ وردی اتار کر میرے ساتھ شامل ہوجاؤ۔ کیا یہ ملک کی بغاوت کا معاملہ نہیں بنتا؟ کیجریوال نے خود کہا میں اگر آپ کی نظروں میں بدامنی پسند ہوں تو ہاں ہوں اور اسی پر یقینی کرتا ہوں۔ خود انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے کئی بار کہا ہم اس سسٹم کو بدلنا چاہتے ہیں۔ اس میں سدھار نہیں بلکہ اسے پلٹنا ہے۔ یہ تو بغاوت ہے کیا وہ دیش میں اسی طرح کی خانہ جنگی کروانا چاہتے ہیں جیسے پچھلے سال مشرقی وسطیٰ کے کچھ ملکوں میں ہوا اور آخر میں کیجریوال اینڈ کمپنی کو کیا حاصل ہوا؟ دو پولیس افسر چھٹی پر بھیج دئے گئے۔ پولیس افسر نہ تو معطل ہوئے نہ ہی برخاست اور نہ ہی لائن حاضر۔ منھ چھپانے کے لئے دو افسروں کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر بھیج دیاگیا ۔ کیونکہ یوم جمہوریہ پر عام طور پر پولیس والوں کو چھٹی نہیں ملتی اور نہ ہی یہ پیغام جاتا کہ ایک داروغہ نے وزیر اعلی کو جھکا دیا۔ خاص بات یہ رہی کہ وزیر سومناتھ بھارتی سے ٹکرائے اے سی پی بھرت سنگھ کو چھٹی پر نہیں بھیجا گیا اور پٹ پڑ گنج کے پی سی آر انچارج کو بھی چھٹی پر بھیج دیا گیا جنہیں ہٹانے کی مانگ نہیں کی جارہی تھی۔ اب کیجریوال اور خاص طور سے سومناتھ بھارتی کو اپنی کرنی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔مالویہ نگر کے کھڑکی ایکسٹینشن کی وہ افریقی نژاد عورت نے مجسٹریٹ کے سامنے164 کے تحت اپنا بیان درج کرایا اور چھاپہ ماری دستے کی رہنمائی کرنے کی شکل میں سومناتھ بھارتی کی پہچان بھی کی گئی ہے۔ ان سے استعفے کی مانگ زور پکڑتی جارہی ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ کیا جن سومناتھ بھارتی کو بچانے کے لئے کیجریوال نے اتنا ڈرامہ کیا کیا انہیں اب بچا پائیں گے؟آخر میں اگر ہم ہندوستانی سفارتکار خاتون دیویانی سے امریکی پولیس کے ذریعے نازیبا برتاؤ پر اتنی ہائے توبہ مچا رہے ہیں تو اپنے گھر میں دہلی سرکار کے قانون منتری کا ایک غیر ملکی خاتون سے اس طرح کا نازیبا برتاؤ قابل قبول ہے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں