عشرت آتنکی تھی یا نہیں؟ سی بی آئی اور آئی بی آمنے سامنے
گجرات میں فرضی مڈبھیڑ میں ماری گئی 26 سالہ عشرت جہاں کی اصلی پہچان حکومت نے اتنے برسوں بعد بھی واضح نہیں کی ہے۔ 15 جون2004ء کو جاوید ، امجد علی اور ذیشان گوہر نام کے تین مبینہ آتنک وادیوں کے ساتھ عشرت جہاں کی فرضی مڈبھیڑ میں ہتیا کردی گئی تھی۔ اس مڈ بھیڑ کو انجام دینے والی گجرات پولیس کے مطابق نریندر مودی کے قتل کے مقصد سے یہ تینوں آئے تھے لیکن معاملے کی جانچ میں پتہ چلا کہ پولیس نے خفیہ ایجنسیوں اور آئی بی کی گجرات برانچ کی مدد سے چاروں کو مہینے بھر پہلے اغوا کر رکھا تھا اور انہیں آتنک وادی ثابت کرنے کے لئے ان کی لاشوں کے پاس اے کے 56 جیسے خطرناک ہتھیار رکھ دئے گئے تھے۔ سی بی آئی کی پہلی چارج شیٹ کے مطابق ہتھیار آئی بی نے مہیا کرایا تھا۔ پورے واقعہ میں تین لڑکوں کے آتنکی ہونے پر کوئی سوال کھڑا نہیں ہوالیکن سی بی آئی کے ساتھ تمام ایجنسیاں اس نتیجے پر نہیں پہنچ پائیں ہیں کے عشرت جہاں آتنکی تھی یا نہیں؟ اب تک کی جانچ کے مطابق عشرت جہاں جاوید کے ساتھ کام کیا کرتی تھی اور کام کے سلسلے میں وہ جاوید کے ساتھ ممبئی سے باہر جایا کرتی تھی۔ آئی بی کا خیال ہے کہ اگر عشرت کو ان تینوں کے ساتھ نہیں مارا جاتا تو یہ معاملہ اتنا طول نہیں پکڑتا۔ ادھر معاملے کی جانچ کررہی سی بی آئی عشرت جہاں کو آتنکی نہ قرار دینے کا من بنا چکی ہے لیکن آخری فیصلے سے پہلے ایجنسی کو سرکار کی ہری جھنڈی کا انتظار ہے۔ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے ایک ہندی اخبار ’امر اجالا‘‘ سے کہا کہ عشرت کے آتنک وادی ہونے یا نہ ہونے سے متعلق اتنا بڑا سوال ہے کہ وہ کھلے طور پر اس کا جواب نہیں دے سکتے اس لئے چھ مہینے سے وزیر داخلہ اس سوال کو ٹالتے رہے ہیں۔ عشرت کے سوال پر شندے نے بس اتنا کہا کہ نیتا اور وزیر سیاسی رنگ منچ پر اور اس کے پیچھے ایک ساتھ کئی رول نبھاتے رہتے ہیں۔ عشرت جہاں کو لیکر مرکزی سرکار بھلے ہی خاموشی اختیار کرلے لیکن اندر کی خبر یہ ہے کہ سی بی آئی عشرت کو آتنکی تنظیم لشکر طیبہ سے جوڑ کر نہیں دیکھ رہی ہے۔ سی بی آئی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کی فاضل چارج شیٹ میں عشرت کو آتنک وادی قرار دینے نہیں جارہی ہے۔ عشرت اور اس کے تین ساتھیوں کے فرضی مڈ بھیڑ پر فاضل چارج شیٹ جلد دائر کرنے والی ہے اس میں آئی بی کے سابق جوائنٹ ڈائریکٹر راجکمار کو بھی قتل اور سازش کا ملزم بنانے کافیصلہ کیا جاچکا ہے۔ کمار کے علاوہ آئی بی کے تین اور افسروں راجیو وانکھڑے، ایم کے متل اور سنیل سنہا کا نام بھی شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ سی بی آئی کے مطابق گجرات ریاستی آئی بی برانچ کے حکام نے سابق ڈی آئی جی بنجارا کے ساتھ مل کر عشرت اور اس کے تین ساتھیوں کو فرضی مڈ بھیڑ میں مار ڈالا تھا۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے آتنک وادی ثابت کرنے کے لئے ان کی لاشوں کے پاس ناجائز طور پر اے کے ۔56 جیسے خطرناک ہتھیار رکھ دئے تھے۔ 15 جون2004 ء کی اس مڈ بھیڑ کی انتظامی رپورٹ کے مطابق مارے گئے تین لڑکوں میں سے دو پاکستانی ہیں۔ مڈ بھیڑ پر مچے واویلے کے درمیان ممبئی کے کسی علاقے میں رہنے والی 19 سالہ عشرت کی اصلی پہچان پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ سی بی آئی کا دعوی ہے اسے عشرت کے آتنکی ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں حالانکہ ایک جانچ افسر نے دعوی کیا کے امریکہ جیل میں بند آتنکی ڈونالڈ ہیڈلی نے کہا تھا کہ عشرت لشکر کی ممبر ہے اور اس نے یہ مانا تھا کہ عشرت اس کی ممبر تھی۔ اتنے تنازعے کے بعد بھی آج تک سرکار نے عشرت کی اصلیت پر خاموشی اختیارکی ہوئی ہے اور اس کیس کو لیکر سی بی آئی اور آئی بی آمنے سامنے آگئی ہیں۔
(انل نریندر)گجرات میں فرضی مڈبھیڑ میں ماری گئی 26 سالہ عشرت جہاں کی اصلی پہچان حکومت نے اتنے برسوں بعد بھی واضح نہیں کی ہے۔ 15 جون2004ء کو جاوید ، امجد علی اور ذیشان گوہر نام کے تین مبینہ آتنک وادیوں کے ساتھ عشرت جہاں کی فرضی مڈبھیڑ میں ہتیا کردی گئی تھی۔ اس مڈ بھیڑ کو انجام دینے والی گجرات پولیس کے مطابق نریندر مودی کے قتل کے مقصد سے یہ تینوں آئے تھے لیکن معاملے کی جانچ میں پتہ چلا کہ پولیس نے خفیہ ایجنسیوں اور آئی بی کی گجرات برانچ کی مدد سے چاروں کو مہینے بھر پہلے اغوا کر رکھا تھا اور انہیں آتنک وادی ثابت کرنے کے لئے ان کی لاشوں کے پاس اے کے 56 جیسے خطرناک ہتھیار رکھ دئے گئے تھے۔ سی بی آئی کی پہلی چارج شیٹ کے مطابق ہتھیار آئی بی نے مہیا کرایا تھا۔ پورے واقعہ میں تین لڑکوں کے آتنکی ہونے پر کوئی سوال کھڑا نہیں ہوالیکن سی بی آئی کے ساتھ تمام ایجنسیاں اس نتیجے پر نہیں پہنچ پائیں ہیں کے عشرت جہاں آتنکی تھی یا نہیں؟ اب تک کی جانچ کے مطابق عشرت جہاں جاوید کے ساتھ کام کیا کرتی تھی اور کام کے سلسلے میں وہ جاوید کے ساتھ ممبئی سے باہر جایا کرتی تھی۔ آئی بی کا خیال ہے کہ اگر عشرت کو ان تینوں کے ساتھ نہیں مارا جاتا تو یہ معاملہ اتنا طول نہیں پکڑتا۔ ادھر معاملے کی جانچ کررہی سی بی آئی عشرت جہاں کو آتنکی نہ قرار دینے کا من بنا چکی ہے لیکن آخری فیصلے سے پہلے ایجنسی کو سرکار کی ہری جھنڈی کا انتظار ہے۔ وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے ایک ہندی اخبار ’امر اجالا‘‘ سے کہا کہ عشرت کے آتنک وادی ہونے یا نہ ہونے سے متعلق اتنا بڑا سوال ہے کہ وہ کھلے طور پر اس کا جواب نہیں دے سکتے اس لئے چھ مہینے سے وزیر داخلہ اس سوال کو ٹالتے رہے ہیں۔ عشرت کے سوال پر شندے نے بس اتنا کہا کہ نیتا اور وزیر سیاسی رنگ منچ پر اور اس کے پیچھے ایک ساتھ کئی رول نبھاتے رہتے ہیں۔ عشرت جہاں کو لیکر مرکزی سرکار بھلے ہی خاموشی اختیار کرلے لیکن اندر کی خبر یہ ہے کہ سی بی آئی عشرت کو آتنکی تنظیم لشکر طیبہ سے جوڑ کر نہیں دیکھ رہی ہے۔ سی بی آئی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کی فاضل چارج شیٹ میں عشرت کو آتنک وادی قرار دینے نہیں جارہی ہے۔ عشرت اور اس کے تین ساتھیوں کے فرضی مڈ بھیڑ پر فاضل چارج شیٹ جلد دائر کرنے والی ہے اس میں آئی بی کے سابق جوائنٹ ڈائریکٹر راجکمار کو بھی قتل اور سازش کا ملزم بنانے کافیصلہ کیا جاچکا ہے۔ کمار کے علاوہ آئی بی کے تین اور افسروں راجیو وانکھڑے، ایم کے متل اور سنیل سنہا کا نام بھی شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ سی بی آئی کے مطابق گجرات ریاستی آئی بی برانچ کے حکام نے سابق ڈی آئی جی بنجارا کے ساتھ مل کر عشرت اور اس کے تین ساتھیوں کو فرضی مڈ بھیڑ میں مار ڈالا تھا۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے آتنک وادی ثابت کرنے کے لئے ان کی لاشوں کے پاس ناجائز طور پر اے کے ۔56 جیسے خطرناک ہتھیار رکھ دئے تھے۔ 15 جون2004 ء کی اس مڈ بھیڑ کی انتظامی رپورٹ کے مطابق مارے گئے تین لڑکوں میں سے دو پاکستانی ہیں۔ مڈ بھیڑ پر مچے واویلے کے درمیان ممبئی کے کسی علاقے میں رہنے والی 19 سالہ عشرت کی اصلی پہچان پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ سی بی آئی کا دعوی ہے اسے عشرت کے آتنکی ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں حالانکہ ایک جانچ افسر نے دعوی کیا کے امریکہ جیل میں بند آتنکی ڈونالڈ ہیڈلی نے کہا تھا کہ عشرت لشکر کی ممبر ہے اور اس نے یہ مانا تھا کہ عشرت اس کی ممبر تھی۔ اتنے تنازعے کے بعد بھی آج تک سرکار نے عشرت کی اصلیت پر خاموشی اختیارکی ہوئی ہے اور اس کیس کو لیکر سی بی آئی اور آئی بی آمنے سامنے آگئی ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں