15 دنوں کا کیجریوال اینڈ سنز کا لیکھا جوکھا!

حالانکہ 15-20 دن کسی بھی حکومت کے لئے بہت کم وقت ہوتا ہے کچھ کر دکھانے اور اپنے ارادوں کو سامنے رکھنے کیلئے ۔ لیکن عام آدمی پارٹی سے جنتا کو ان 15 دنوں میں تھوڑی مایوسی ضرور ہورہی ہے۔ ایک کے بعد ایک تنازعے میں پھنستی جارہی ہے اروند کیجریوال کی سرکار سے افسر شاہ ہی نہیں بلکہ عام آدمی میں بھی الجھن کی حالت بنی ہوئی ہے۔ حال یہ ہے کہ سرکار کسی بھی کام کے لئے پہلے قدم بڑھاتی ہے اور پھر اپنے قدم واپس لے لیتی ہے اس لئے چند دنوں میں کیجریوال سرکار اپنے فیصلے کو پلٹ چکی ہے۔ فیصلے بدلنے کا یہ سلسلہ سرکار بننے کے پہلے دن سے ہی دکھائی دے رہا ہے۔ کچھ مثالیں ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنے کا وعدہ، وزرا نے لیں گاڑیاں، سچیوالیہ میں میڈیا کے داخلے پرپابندی، دو گھنٹے میں واپس کیجریوال نے کہا فلیٹ میں رہوں گا پھر ڈپلیکس مکان قبول کیا۔ جنتا کے دباؤ میں اسے چھوڑا۔ نئے گھر کی تلاش ابھی جاری ہے۔666 لیٹرپانی مفت دینے کا اعلان، لیکن قیمت10 فیصدی بڑھا دی۔سڑک پر جنتا دربار لگایا ،اب کوئی دربار نہیں لگے گا۔ پہلے بولا سرکار عام آدمی کے بیچ جائے گی، اب کال سینٹر بنائیں گے۔بجلی کے دام آدھے کرنے کا اعلان، لیکن سبسڈی دے دی۔ ججوں کی میٹنگ بلانے کی کوشش، ہنگامے کے بعد منتری جی رکے۔ ایوان میں ممبر اسمبلی ٹوپی پہن کر پہنچے ،ہنگامے کے بعد ٹوپی اتر گئی۔ منتری راکھی برلا نے حملے کی رپورٹ درج کرائی، بچے کا خاندان دقت میں پھنسا،بعد میں کہا کہ حملہ نہیں تھا کرکٹ بال سے ٹوٹا شیشہ۔ پانی کے بلوں میں منمانی روکنے کے بجائے انہیں متنازعہ میٹروں کو لگانا شروع کردیا جنہیں کیجریوال نے خود فیل کیا تھا اور دعوی کیا گیا تھا یہ تو ہوا سے ہی چلتے ہیں۔ کرپشن ختم کرنے کے لئے اسٹنگ آپریشن شروع کردئے۔ جب چناؤ سے پہلے آپ نیتاؤں پر اسٹنگ آپریشن ہوئے تو انہیں مسترد کردیا اب اسی طرح کے اسٹنگ آپریشن کررہے ہیں۔ اب کرپشن روکنے کیلئے ہیلپ لائن شروع کی۔ بولے سبھی فون کالوں کا جواب ممکن نہیں، کہا سکیورٹی نہیں لیں گے لیکن پولیس بغیر بتائے دے رہے ہیں۔ پیر کو کئی محکموں میں اینٹی کرپشن چھاپہ مارنے کا دعوی، پھر بولے اسٹنگ اچھے نہیں تھے اس لئے چھاپہ نہیں پڑا۔ چناؤ سے پہلے بقایا بجلی کے بلی معاف کئے، پھر پلٹے ۔ کیجریوال خود بھی بار بار اس بات کو دوہرا چکے ہیں ان کی سرکار سے دہلی کی جنتا کو بہت امیدیں ہیں لیکن سرکار کے پہلے 15 روز میں ہیں جس طرح کیجریوال اپنے ہی فیصلوں کو پلٹ رہے ہیں اس سے عام آدمی میں تو غلط پیغام جا ہی رہا ہے ساتھ ہی افسروں کو بھی وزیر اعلی ارون کے وزرا کا کام کرنے کا طریقہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ حال یہ ہے تمام پالیسی ساز فیصلوں کو لیکر افسر بولنے کو تیار نہیں ہیں۔ آپ پارٹی کو سب سے بڑا چندہ دینے والے شانتی بھوشن، پرشانت بھوشن شاید اپنے آپ کو اروند کیجریوال اور آپ پارٹی سے اوپر سمجھتے ہیں۔ پچھلے15 روز میں پرشانت بھوشن نے دو ایسے متنازعہ بیان دئے جس سے کیجریوال کا گراف گرا ہے۔
پہلے تو انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہہ دیا اندرونی سکیورٹی کے معاملے میں اگر جموں و کشمیر سرکار ریفرنڈم کرا لے تو زیادہ اچھا رہے گا۔ اگر کشمیر کے لوگ چاہیں سکیورٹی کے لئے فوج کی تعیناتی نہ ہو تو بھارت سرکار کو رائے شماری کا احترام کرتے ہوئے وہاں سے فوج ہٹا لینی چاہئے۔ ابھی اس بے مطلب تبصرے پر واویلا رکا نہیں تھا کہ بھوشن نے نکسلی متاثرہ علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے لئے ریفرنڈم کرانے کی بات کہہ دی۔ پرشانت بھوشن نے کہا نکسلی متاثرہ علاقوں میں مرکزی اور نیم فوجی فورسز کی تعیناتی کے معاملے پر ریفرنڈم کرایا جانا چاہئے۔ ان کی ان مانگوں پر مچے ہنگامے کے سبب اروند کیجریوال کنارہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں ن ے کہا یہ پرشانت بھوشن کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے پارٹی کی نہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ پرشانت بھوشن آخر کس حیثیت سے ایسے الٹے سیدھے بیان دے رہے ہیں؟ اروند کیجریوال نے یہ نہیں بتایا کے پرشانت بھوشن کی ’’آپ‘‘ پارٹی میں کیا حیثیت ہے۔ یا پھر ہم یہ سمجھیں کے یہ پارٹی کے ایجنڈے میں ہے جو بھوشن بول رہے ہیں؟ ابھی پرشانت بھوشن کا جھگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ کیجریوال اینڈ سنز ایک اور تنازعے میں پھنس گئے ہیں۔ دہلی کے وزیرقانون سومناتھ بھارتی پر پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں ایک معاملے کے دوران ثبوت سے چھیڑ چھاڑ کا الزام لگا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت کا ہے جب بھارتی اسٹیٹ بینک آف میسور کے وکیل ہواکرتے تھے۔ انہوں نے اپنے موکل جو کیس میں ملزم تھا ایک گواہ سے رابطہ قائم کر اس کی بات چیت ریکارڈ کی۔ کسی بھی گواہ سے ملزم کے وکیل کے ذریعے رابطہ قائم کرنا وکیل ایکٹ کے تحت ملی بھگت کا معاملہ بنتا ہے۔ پچھلے سال اگست میں سی بی آئی کے اسپیشل جج نے اس معاملے میں ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے پر سومناتھ بھارتی کو پھٹکار لگائی تی۔ معاملے میں سی بی آئی نے الزام لگایا تھا کہ گواہ سے فون پر بات کر انہیں متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے بعد جج نے بھارتی کے کلائنٹ کی ضمانت یہ کہتے ہوئے منسوخ کردی کہ انہوں نے کورٹ سے ملی چھوٹ کا فائدہ اٹھا کر گواہ کر توڑنے کی کوشش کی ہے۔ معاملہ ہائی کورٹ تک گیا اور فیصلہ بھارتی اور موکل کے خلاف گیا۔ اروند کیجریوال نے اپنے وزیر کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا میں نے سومناتھ بھارتی اور پرشانت بھوشن سے بات کی ہے کوئی 100 کروڑ سے زیادہ کا معاملہ تھا جس میں فرضی خط میسور بینک میں دے کر نقدی دی گئی تھی۔ اس میں بڑے افسر بھی شامل تھے محض ایک چھوٹے افسر کو ہی پکڑا گیا تھا۔ اسی افسر نے ایک اسٹنگ کرلیا تھا اس اسٹنگ کی جانکاری کورٹ میں پیش کی گئی۔ انہوں نے کسی گواہ کو متاثر نہیں کیا بلکہ اسٹنگ آپریشن کرکے سچ سامنے لانے کی کوشش کی۔ اروند کیجریوال بیشک کچھ صفائی دیں لیکن ایسا داغی نیتا کیا ’’آپ‘‘کی سرکار میں وزیر قانون رہ سکتا ہے جس کے خلاف عدالتوں نے اعتراض آمیز ریمارکس دئے ہوں؟ کل ملاکر پچھلے15 دنوں کا اگر ہم لیکھا جوکھا دیکھیں تو اس سرکار اور خاص کر اروند کیجریوال کا گراف نیچے آرہا ہے۔ ایک طرف عام آدمی پارٹی لوک سبھا چناؤ کی تیاری کررہی ہے تو وہیں پارٹی کے اندر تضاد اور تنازعات سے پارٹی حاشئے پر آگئی ہے۔ مختلف نظریات کے لوگ ایک اسٹیج پر آنے کے سبب کیجریوال کو اپنی جاڑو پہلے پارٹی کے اندر ہی چلانی پڑ سکتی ہے۔ مبصروں کو لگتا ہے کہ ’’آپ‘‘ ایک ایسی پارٹی کے طور پر دکھائی دے رہی ہے جس میں کبھی بھی دھماکہ ہوسکتا ہے۔ جے رام رمیش نے کہا تھا کہ ’’آپ‘‘ پارٹی نہیں بلکہ یہ الگ الگ نظریات کے لوگوں کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ پارٹی میں ایسے لوگ جگہ بناتے جارہے ہیں جس سے پارٹی کی مقبولیت کا فائدہ اٹھاکر اپنی سیاسی خواہشات پوری کرنا چاہتے ہیں۔ ’’آپ‘‘ کو ووٹ دینے والوں کا کیجریوال اینڈ سنز سے بڑی تیزی سے بھروسہ اٹھ رہا ہے۔ دیکھیں کیجریوال اس گرتے گراف کو لگام لگا پاتے ہیں یا نہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!