مظفر نگر دنگا متاثرین میں لشکر طیبہ کا پھیلتا جال!

دہشت گردی کا خونی سایہ دیش پر کس قدر منڈرا رہا ہے کہ لشکر طیبہ کے مبینہ دہشت گردوں کی حالیہ گرفتاری سے پتہ چلا ہے کہ کچھ وقت پہلے کانگریس کے نائب صدر کے بیان سے سیاسی بھونچال سا آگیا تھا جب انہوں نے سنسنی خیز بیان دیا تھا کہ مظفر نگر کے کچھ فساد متاثرین نوجوان پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے رابطے میں ہیں۔ ان کی بات سچ ثابت ہوتی نظر آرہی ہے۔ دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے ہتے چڑھے دو مشکوک دہشت گردمحمدشاہد اور محمد راشد سے پوچھ تاچھ کے دوران یہ جانکاری سامنے آئی ہے کہ دہلی میں آتنک کا خون کھیل کھیلنے کی سازش 6 دسمبر کو رچی گئی۔ یہ خوش قسمتی ہے کہ سازش کی پول کھل گئی اور دہشت گردوں کی سازش ناکام ہوگئی۔ان سے یہ بھی خلاصہ ہوا ہے کہ مظفر نگر کے کچھ فساد متاثر نوجوان آئی ایس آئی کے رابطے میں ہیں حالانکہ ابھی تک وزارت داخلہ نے ایسا کوئی ثبوت ملنے سے انکار کیا ہے لیکن اتنا طے ہے کہ آئی ایس آئی کے گرگے فساد متاثر مظفر نگر تک نا صرف پہنچ گئے ہیں بلکہ فساد کی آڑ میں مقامی نوجوانوں کو دہشت گرد بنانے کی سازش بھی رچ رہے ہیں۔مظفر نگر اور شاملی کے فساد متاثرین راحت کیمپوں کا کنکشن لشکر طیبہ سے ہو یا نہ ہو لیکن کچھ نامعلوم لوگ یہاں آکر فساد متاثرین کو بھڑکاتے ضرور ہے۔ یہ کہنا ہے یہاں موجود کچھ فساد متاثرین کا۔امداد دینے کے بہانے ان کیمپوں میں کچھ نامعلوم لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ لشکر کے فساد متاثر کیمپوں میں سرگرم ہونے کی خبر سے ہماری سکیورٹی ایجنسیاں بھی ہوشیار ہوگئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق آئی بی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں میں مظفر نگر اور شاملی کے کئی مدرسوں کو جانچ کے گھیرے میں لے لیا ہے۔ جانچ کی جارہی ہے کہ کہیں پڑھائی کے بہانے مدرسوں سے جڑے مشکوک لوگ دہشت گردی میں شامل تو نہیں ہیں۔ ہریانہ کے میوات سے مشکوک آتنک وادیوں محمد شاہد اور محمد راشد کی گرفتاری سے لگتا ہے کہ میوات دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے۔ اس کا پتہ تو خفیہ ایجنسیوں کو ایک ماہ پہلے لشکر آتنکی محمد شاہد کی گرفتاری کے ساتھ ہی چل گیا تھا۔یہیں عبدالکریم ٹنڈا، یٰسین بھٹکل اور یٰسین دربھنگہ بھی اپنا ٹھکانا بنا کر رہے ہیں۔ تینوں پردیشوں یوپی ،ہریانہ اور راجستھان کے سرحدی علاقے کے کئی گاؤں مشکوکوں کو ہتھیار مہیا کرانے کے محفوظ ٹھکانوں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ میوات علاقے میں لشکر کے ابھی کئی گرگے پناہ لئے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ نہیں کہ آئی ایس آئی اور لشکرطیبہ ان ہندوستانی لوگوں کو ورغلانے میں کامیاب ہورہی ہے بلکہ وہ فساد زدگان ہیں یا نہیں۔ بڑا سوال یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا ہونے کی وجہ کیا ہے کہ ہمارے شہری دیش مخالف طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن رہے ہیں۔ اگر آج پاکستان قصاب کو بھیجے ہمارے ہی لوگوں کے ہاتھوں ہماری زمین کو لہو لہان کرنے میں کامیاب ہوتا دکھ رہا ہے تو یہ ہمارے تمام اندرونی تحفظ دائرے کے لئے بیحد تشویشناک بات ہے۔اس پورے معاملے سے آئی ایس آئی کے خطرناک منصوبے ایک بار پھر سامنے آئے ہیں کہ وہ کس طرح بھارت کے نوجوانوں کو آتنک وادی بنانے کے فراق میں رہتا ہے۔ دوسرے آتنک وادی اب اپنا نیٹورک ان علاقوں میں پھیلانے کی کوشش میں لگے ہیں جو اب تک ان کی سرگرمیوں سے اچھوتے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں بہار کے بودھ گیا ، پٹنہ اور نریندر مودی کی ریل سمیت کئی جگہوں پر کئے گئے سیریل بم دھماکوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ہریانہ کے میوات اور اترپردیش کے مظفر نگر تک ان کی پہنچ ہوگئی ہے۔ لشکر کے پھیلتے جال کا مسئلہ خفیہ ایجنسیوں اور سکیورٹی سسٹم کے لئے ایک چیلنج بھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!