میرا موازنہ ترون تیج پال سے نہ کیا جائے، جسٹس گانگولی

تہلکہ کے مدیر ترون تیج پال جنسی استحصال معاملے میں پھنسے تو اس کی آنچ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈر جج اشوک کمار گانگولی تک پہنچ گئی ہے۔ ہر طرف سے دباؤ بڑھ رہا ہے کہ انہیں جنسی استحصال کے ایک معاملے میں قانونی گھیرے میں لیا جائے۔ یہ سوال کھڑے کئے جارہے ہیں کہ وہ دیش کے سب سے بڑے انصاف کے مندر کے جج رہ چکے ہیں، ایسے میں انہیں کوئی رعایت نہیں ملنی چاہئے۔ ویسے بھی ان دنوں تیج پال کا معاملہ گرمایا ہوا ہے اسی کے چلتے اب جسٹس گانگولی کے معاملے میں بھی لمبی لڑائی جھیلنی پڑ سکتی ہے۔ ایک خاتون وکیل نے ان پر الزام لگایا تھا کہ وہ جب قانون کی تربیت میں اپنے دادا کی عمر والے ان جج موصوف کے ساتھ کام کررہی تھی تو ایک دن ہوٹل کے کمرے میں ان جج موصوف نے ان کا جنسی استحصال کیا تھا لیکن اس وقت وہ چپ رہی۔ پچھلے دنوں جب جانباز صحافی ترون تیج پال کے کارنامے کا انکشاف ہوا تو تب ایک غیر سرکاری انجمن میں کام کرنے والی ایک نوجوان خاتون وکیل نے بلاگ میں لکھ کر اس کا خلاصہ کیا تھا کہ پچھلے سال دہلی سمیت پورا دیش نربھیا آبروریزی کانڈ سے کافی ناراض تھا اسی دور میں سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج نے اس پر بھی جھپٹا مارا تھا۔ کسی طرح سے وہ بچ گئی لیکن کافی عرصے تک صدمے میں رہی۔ یہ انکشاف ہونے کے بعد سنسنی پھیل گئی ہے۔ کیونکہ معاملہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کا تھا ایسے میں چیف جسٹس سداشیوم نے سپریم کورٹ کے تین ججوں کی ایک جانچ سمیتی جسٹس آر لودھا کی سربراہی میں بنا دی ہے۔ اس جانچ سمیتی میں جسٹس لودھا کے ساتھ جسٹس ایم۔ ایل۔ گٹو اور جسٹس رنجنا دیسائی ہیں۔ یہ تین نفری جانچ سمیتی 12 سے 27 نومبر تک 8 میٹنگیں کر چکی ہے۔ کمیٹی کے سامنے متاثرہ خاتون وکیل اور ملزم جسٹس اے۔کے۔ گانگولی بھی پیش ہوئے تھے۔ متاثرہ نے کمیٹی کے سامنے پورے واقعے کی تفصیل رکھی اور بتایا کہ پچھلے سال 24 دسمبر کو اس کے ساتھ یہ حادثہ ہوا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب دہلی میں نربھیا کانڈکو لیکر ایک بڑی تحریک چل رہی تھی۔ قابل ذکر ہے دسمبر 2008ء سے 12 تک جسٹس گانگولی سپریم کورٹ کے جج رہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔ اس کی تصنیف میں یہ لڑکی ان کا تعاون کررہی تھی۔اسی دوران یہ حادثہ ہوا۔ اب متاثرہ ایک این جی او میں کام کررہی ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ چیف جسٹس کو سونپ دی ہے۔ اس میں جسٹس گانگولی کا بیان درج ہے۔ بدفعلی کے الزام میں نام آنے کے بعد وہ خود سامنے آئے اور صفائی دی ۔ کہا میں الزامات سے دکھی ہوں اور مجھے تکلیف پہنچی ہے۔ میں نے جانچ کمیٹی کو بتایا کہ لڑکی کے الزام غلط ہیں۔ نہیں جانتا کے ایسے الزام میرے خلاف کیوں لگے ہیں؟ اس معاملے کا موازنہ تیج پال سے نہیں ہونا چاہئے۔ جسٹس گانگولی نے کہا اس وقت میرے ساتھ دو انٹرن کام کیا کرتی تھیں۔ ایک شادی کے بعد بیرونی ملک چلی گئی اس کی جگہ یہ لڑکی آئی۔ میں نے اس کے لئے پوسٹر نہیں لگائے تھے وہ خود آگئی تھی۔ ہوٹل میں بلاوے کے الزام پرجسٹس گانگولی نے کہا میں دہلی میں تھا وہ بھی دہلی میں تھی اسے پتہ تھا کہ میں دہلی میں ہوں اور وہ خود مجھ سے ملنے آئی تھی۔ ہوٹل میں کام کے بعد میرے ساتھ ڈنر کیا اگر اسے میرے ساتھ کام کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا تو وہ کسی بھی لمحے جا سکتی تھی۔ اس کے بعد وہ کئی بار ملتی رہی اور میرے گھر بھی آئی۔ میں نے اس کے ساتھ ہمیشہ اپنی بچی کی طرح برتاؤکیا۔ بے گناہی ثابت کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا میں ان الزامات کو منفی کیسے ثابت کرسکتا ہوں؟ ٹی وی چینلوں پر جسٹس گانگولی نے کہا میں حالات کا شکار ہوا ہوں لیکن کسی بات کے لئے شرمندہ نہیں ہوں۔ میں نے اس لڑکی سے بھی رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مجھے امید ہے کے لوگ میرے کام کاتجزیہ اس واقعے کی بنیاد پر نہیں کریں گے۔ اس طرح کے الزامات سے سپریم کورٹ میں ایماندار ججوں کا کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔ سوال ہے کہ اب آگے کیا ہوگا؟ سپریم کورٹ کے وکیل روہت شنکر کے مطابق معاملہ چیف جسٹس کے پاس ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ پر وہ ہی کوئی ہدایت دے سکتے ہیں۔ اگر انہیں لگتا ہے کہ یہ معاملہ بنتا ہے تو وہ پولیس کو جانچ کرنے کی ہدایت بھی دے سکتے ہیں۔ وہیں دہلی ہائیکورٹ کے وکیل دگپال کا کہنا ہے چونکہ خاتون وکیل نے جوالزام لگائے ہیں اس میں جھول ہے لہٰذا پولیس خود ایف آئی آر درج کر سکتی ہے جیسا کہ ترون تیج پال کے معاملے میں ہوا لیکن چیف جسٹس کے پاس معاملہ ہے اس لئے پولیس ان کے موقف کا انتظار کرے گا۔ اب آگے کا سارا دارومدار چیف جسٹس پی سداشیوم کے ضمیرپر ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟