دہلی میں پولنگ سے پہلے تین دنوں میں کئی فیکٹر کام کرسکتے ہیں!

دہلی اسمبلی چناؤ میں پولنگ کیلئے مشکل سے تین چار دن بچے ہیں۔یہ دن انتہائی اہمیت کے حامل ثابت ہوسکتے ہیں، خاص کر2 اور3 دسمبر ۔ اس دن کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ابھی تک موصولہ سروے سے لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی آگے چل رہی ہے۔ پولنگ سے ٹھیک پہلے اے بی پی نیوز سروے کے مطابق بھاجپا کے سی ایم امیدوار ڈاکٹرہرش وردھن دہلی کے وزیر اعلی کے لئے پہلی پسند بن کر ابھرے ہیں۔ انہیں34 فیصدی لوگوں نے پسند کیا ہے۔ دوسرے نمبر پر اروند کیجریوال ہیں انہیں 33 فیصد لوگ چاہتے ہیں۔ وزیر اعلی شیلا دیکشت تیسرے نمبر پر ہیں انہیں26 فیصد لوگ پسند کرتے ہیں۔ سیٹوں کے حساب سے بھاجپا کو40، کانگریس کو21، عام آدمی پارٹی کو7 اور دیگر کو 2 سیٹیں ملنے کے آثار ہیں۔ چناوی اشوز میں مہنگائی سب سے بڑا اشو ہے۔ سٹہ بازار کے مطابق بھاجپا اگلی سرکار بنائے گی۔ بھاجپا پر سب سے کم بھاؤلگا ہے۔ دہلی کے چناؤمہم کے آخری دنوں میں یہ اشو اثر ڈال سکتا ہے۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں وزیراعلی دیکشت کا عام آدمی پارٹی سے چناؤ بعداتحاد بارے متنازعہ بیان وزیر اعلی شیلا دیکشت نے چناؤ میں مکمل اکثریت حاصل کرنے میں پیچھے رہنے پر عام آدمی پارٹی سے حمایت لینے سے پرہیز نہ کرنے کے بیان نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ کانگریس کے کئی لیڈر اسے لیکر حیرت میں ہیں۔ ایک ٹی وی چینل پر شیلا جی سے سوال کیا گیا تھا کہ واضح اکثریت نہ آنے پر کیا ’آپ ‘ کے ساتھ اتحاد کے بارے میں سوچ سکتی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا ہاں۔ یہیں سے ان کے بیان کو لیکر واویلا کھڑا ہوگیا ہے۔ مطلب آپ کو جیت کا بھروسہ نہیں ہے۔ آپ کو اپنی پارٹی کی حالت پتلی لگ رہی ہے۔ آپ نے اپنی ہار مان لی ہے؟ بھاجپا نے ردعمل پر کہا کہ کانگریس نے ہار مان لی ہے۔ پارٹی لیڈروں کا کہنا ہے کہ اس بیان سے صاف ہے کانگریس ہار رہی ہے۔ اور یہ بھی صاف ہوگیا ہے عام آدمی پارٹی کانگریس کی ’بی‘ ٹیم ہے۔تبھی تو وزیر اعلی کو اتحاد سے پرہیز نہیں ہے۔بھاجپا نیتا اپنی چناؤ مہم میں اسی بیان کو زور شور سے اچھالیں گے۔ بھاجپا کی بات کریں تو وجے جوئلی کی عجیب و غریب حرکت سے کہیں پارٹی کو نقصان نہ ہوجائے۔ تہلکہ کے منیجنگ ایڈیٹر کے عہدے سے مستعفی شوما چودھری کے گھر کے باہر وجے جوئلی کے ذریعے ان کی نام کی پلیٹ اور فرش پر کالک پوت کر کار روکنے کی کوشش جیسی حرکتوں سے پارٹی کو ووٹنگ میں اثر پڑ سکتا ہے۔ دہلی کے سیاسی منظر پر عام آدمی پارٹی اور اروند کیجریوال کا بہت زور شور ہے۔ آپ والے تو یہ دعوی کررہے ہیں اروند کیجریوال تو شیلا دیکشت کو ہرا سکتے ہیں لیکن بہت سے ووٹر یہ بھی کہہ رہے ہیں ’آپ‘ کو ووٹ دینا کہیں اپنا قیمتی ووٹ ضائع کرنے کے برابر نہ ہو کیونکہ آپ اکثریتی سیٹیں جیتنے والی نہیں۔ ایک فیکٹر جس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی وہ ہے مایاوتی فیکٹر۔ بی ایس پی کو اتنی اہمیت نہیں دی جارہی تھی لیکن پارٹی چیف مایاوتی کی دو ریلیوں سے چناوی ماحول میں گرمی آگئی ہے۔ مایاوتی کی ریلیاں چناؤ پر کیا اثر ڈالیں گی اس کا تو 4 دسمبر کو ہی پتہ چلے گا۔ آخر میں بات کرتے ہیں مودی فیکٹر کی۔دہلی میں ان کی تین تین۔ چا چار ریلیاں ہوئی ہیں۔ بھاجپا کا خیال ہے کہ پہلے چھتیس گڑھ میں پھر مدھیہ پردیش میں ووٹ فیصد بڑھنے کی وجہ مودی ہیں۔ اگر یہ ووٹ فیصد بڑھا تو اس کا مطلب ہے نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر مودی کے نام پر بھاجپا کو ووٹ دیا ہے۔ انہیں امید ہے کہ سنیچر کو ہوئی مودی کی ریلیوں کے بعد دہلی میں بھاجپا کی حمایت بڑھے گی لیکن جیسا میں نے کہا یہ سب اندازے ہیں۔ اصلی تصویر تو 8دسمبر کو ہونے والی گنتی کے بعد ہی پتہ چل پائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟