لو ان ریلیشن نہ تو جرم ہے اور نہ پاپ:سپریم کورٹ

پچھلے کچھ برسوں سے لو ان ریلیشن شپ کا سلسلہ بڑھ گیا ہے۔ لڑکے لڑکیاں شادی جیسے روایتی بندھن میں بندھے بغیر ایک ساتھ رہنے لگے ہیں۔آج سے کچھ سال پہلے ایسے رشتوں کو سماج نہ توجائز مانتا تھا اور نہ ہی اچھی نظروں سے دیکھتا تھا لیکن جیسے جیسے مغربی تہذیب کا اثر ہمارے معاشرے پر پڑا نوجوانوں نے یہ سلسلہ شروع کردیا اور آہستہ آہستہ یہ رشتہ بھی قابل قبول ہونے لگا۔ اور باعزت زندگی کے گزر بسر کے لئے تمام قانونی تقاضوں کے باوجود عورتیں کہیں نہ کہیں ایسی پیچیدہ حالت کا سامنا کرتی رہی ہیں جس کے سبب دیش کی عدالتوں کو وقتاً فوقتاً ان کے مفادات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ سانجھی زندگی یعنی ’لو ان ریلیشن شپ‘ ایک ایسی پوزیشن ہے جس پر دیش کی بڑی عدالت نے سنجیدگی سے سرکار کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ عدالت نے بڑھتے لو ان ریلیشن اور قانون کی موجودگی میں ایسے رشتوں میں رہ رہے لوگوں کی پریشانیوں پر تشویش جتائی ہے۔ جسٹس کے۔ ایس رادھا کرشنن کی سربراہی والی بنچ نے ایک دوررس فیصلے میں بغیر شادی کئے میاں بیوی کی طرح زندگی بسر کرنے والے لڑکی لڑکوں کے رشتوں کو ازدواجی رشتوں کے دائرے میں لائے جانے سے متعلق قانون بنانے کی بات کہی ہے۔ سپریم کورٹ نے لو ان ریلیشن رشتوں پر پارلیمنٹ سے باقاعدہ قانون بنانے کو کہا ہے جس میں ایسے رشتوں میں شامل عورتوں اور بچوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے کافی سہولت ہوں۔ فیصلے میں عدالت نے کہا کہ پارلیمنٹ اس طرح کے رشتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے قانون بنانے پر غورکرے۔ بنچ نے کسی رشتے کو لو ان ریلیشن شپ کو تسلیم کرنے کے لئے گائڈ لائنس طے کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ وقت میں سماج میں اس طرح کے رشتوں کا چلن ہے لیکن جب یہ رشتہ ٹوٹتا ہے تو اس میں رہنے والی عورتیں زندگی گزر بسر کرنے میں لاچار دکھائی پڑتی ہیں۔ ایسی عورتوں ایسے رشتوں کے سبب پیدا ہوئے بچوں کوپریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا بچوں کا ہونا یہ مضبوط اشارہ دیتا ہے کہ رشتوں میں قدرتاً قربت پیدا ہوئی ہے۔ اس سے یہ صاف ہوتا ہے کہ یہ رشتہ لمبے وقت سے چل رہا ہے۔ غور طلب ہے گھریلو تشدد کے خلاف بنے قانون کے تحت بغیر شادی شدہ کسی مردکے ساتھ رہنے والی عورت اور اس سے پیدا بچوں سے متعلق اس شخص کی منقولہ غیر منقولہ جائیداد پر کوئی حق نہیں بنتا۔ یعنی رشتے ٹوٹنے کی صورت میں عورت کواپنے بچوں کے ساتھ در در کی ٹھوکرے کھانے کو مجبورہونا پڑ سکتا ہے۔ حالانکہ مغربی ملکوں کی طرز پر ہندوستان جیسے روایتی سماج والے دیش میں سانجھہ زندگی یا لو ان ریلیشن شپ کو کسی بھی نقطہ نظر سے سماجی منظوری حاصل نہیں ہے۔ اس طرح کے رشتوں کو ہمیشہ بری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔دونوں لڑکے لڑکی والے کنبے کے لوگ اس طرح کی حرکتوں کو برداشت نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے بچوں سے کوئی رشتہ ناطہ تسلیم کرتے ہیں لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پرانے وقت سے ہی گاؤں دیہات سے لیکر قصبوں، بڑے شہروں میں ایسی مثالیں ملتی رہی ہیں جہاں کوئی عورت بغیر شادی کئے کسی مرد کے ساتھ اپنی زندگی گزر بسر کرتی ضرور سنائی پڑجاتی ہے۔ کئی حالات میں تو بچے بھی ہوجاتے ہیں۔ بنچ نے حالانکہ یہ صاف کردیا کہ ایسے سبھی لو ان ریلیشن اور خاص طور پر غیر شادی کے رشتوں کو سماجی نظریئے کے رشتوں کے دائرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ بنچ نے کہا کہ مرد کے شادی ہونے کی پکی جانکاری کے باوجود اگر کوئی عورت اس سے لو ان ریلیشن شپ بناتی ہے تو اس عورت کو گھریلو تشدد تحفظ ایکٹ 2005 کے دائرے میں گزارا بھتہ نہیں دیا جاسکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا سماج کیا ایسے رشتوں کو سماجی حیثیت دینے کو تیار ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟