چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور اب راجستھان میں ریکارڈپولنگ!

پہلے چھتیس گڑھ پھر مدھیہ پردیش اور ایتوار کو راجستھان میں ریکارڈ پولنگ ہوئی ہے۔لوگوں میں اپنے حق کے تئیں بڑا جوش وخروش دکھائی دیا۔ راجستھان کی اگلی حکومت کے لئے74 فیصدی سے زیادہ ووٹ پڑے۔ ریاست میں اکا دکا واقعات کو چھوڑ کر پولنگ پرامن رہی۔ ریاست کے چیف الیکٹرول آفیسر اشوک جین نے بتایا کہ ریاست کی 14 ویں اسمبلی کی تشکیل کے لئے 200 میں سے199 سیٹوں کیلئے 74.38 فیصدی پولنگ ہوئی۔چورو اسمبلی سیٹ سے بسپا امیدوار کی موت ہونے کے سبب وہاں اب 13 دسمبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ چھتیس گڑھ میں بھاری پولنگ ہوئی تو کانگریس خوش ہوگئی۔ بھاری پولنگ ضرور حکمراں رمن سنگھ سرکار کے خلاف ناراضگی ووٹ مانا جارہا ہے اور کانگریس جیت گئی ہے۔ عام طور پر مانا یہ ہی جاتا ہے کہ اگر ووٹ فیصد زیادہ ہوتو وہاں حکمراں سرکار کے خلاف ووٹ جاتا ہے لیکن ایسا ضروری نہیں۔ کبھی کبھی یہ ووٹ ترقی کے نام پر بھی زیادہ پڑ جاتا ہے۔ موجودہ سرکار سے یہ تشفی کی بھی علامت ہوتی ہے لیکن جب یہ ہی ٹرینڈ مدھیہ پردیش میں نظر آیا تو بھاجپا نے اسے اپنی کامیابی سے تشبیہ دے ڈالی کیونکہ تمام سروے یہ ہی دکھا رہے ہیں شیو راج سنگھ چوہان چناؤ جیت رہے ہیں۔ اب راجستھان میں بھی بھاری پولنگ کیا ظاہرکرتی ہے؟ کیا یہ حکمراں اشوک گہلوت سرکار کیلئے اچھا ووٹ ہے یا پھر ناراضگی کی علامت ہے؟ وسندرا راجے خیمہ تو یہ ہی مان رہا ہے۔ بھاجپا تو اب کھل کر کہہ رہی ہے کہ راجستھان میں اقتدار پلٹ ہوگا۔ ویسے بھی راجستھان کا 1998 ء سے ٹرینڈ رہا ہے وہ ہر پانچ سال میں سرکار بدلتے ہیں۔ راجستھان کے گوپال گڑھ میں ایک واقعہ رونما ہوا تھا جب پولیس نے مسجد میں کچھ مسلمانوں کو چانٹا مارا تھا اور اقلیتوں میں تب سے گہلوت سرکار کے خلاف ناراضگی چل رہی ہے۔ کسی طرح سے گوجر بھی گہلوت سرکار کے خلاف ہیں کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ اس سرکار نے ان کے لئے ریزرویشن کے اشو پر کچھ نہیں کیا۔ اشوک گہلوت بیشک ایک صاف ستھری ساکھ کے لیڈر مانے جاتے ہیں جنہیں راجستھان کا چانکیہ بھی مانا جاتا ہے لیکن انتظامیہ اور اپنے وزرا پر ان کی کمزور پکڑ رہی ہے۔ کرپشن اور گھوٹالوں سے ان کا دور بھرا رہا۔ پھر بات آتی ہے مودی فیکٹر کی۔ بھاجپا کا کہنا ہے پولنگ میں جو زیادہ ووٹ پڑے ہیں یہ نریندر مودی کی مقبولیت اور ان کی حمایت کیلئے ہیں۔ نوجوان طبقے میں نریندر مودی کا جادو چل رہا ہے۔بیشک یہ صحیح ہوسکتا ہے لیکن مقامی اشو پر تھوڑا فرق پڑے گا۔ وزرا اور ممبران اسمبلی کی ذاتی کارگذاری اور ساکھ بھی ووٹر ضرور دیکھیں گے۔ جس شخص نے کام کیا ہے ترقی کروائی ہے، جنتا کے دکھ درد میں ساتھ دیا ہے وہ کوئی لہر نہیں دیکھتا، وہ کسی طرح کی لہر نہ حکمراں پارٹی کے لئے ہے اور نہ اپوزیشن کے لئے دیکھنے کو ملی ہے۔ بھاجپا نیتاؤں کوا مید ہے کہ بھاری پولنگ کا یہ سلسلہ دہلی میں بھی جاری رہے گا۔ اروند کیجریوال نے تو خودکو دہلی کا اگلا وزیر اعلی بھی اعلان کردیا ہے۔ ایک نیوز پورٹل کے ذریعے کچھ نیتاؤں کے خلاف دئے گئے اسٹنگ آپریشن کے باوجود عام آدمی پارٹی نے دعوی کیا ہے کہ 4دسمبر کو اسے دہلی اسمبلی چناؤ میں 70 سیٹوں میں سے50 سیٹیں ملیں گی۔ جانے مانے چناؤ تجزیہ کار یوگیندر یادو نے دعوی کیا کہ ’آپ‘ کے حق میں لہر چل رہی ہے۔ یوگیندر یادو نے اس دعوے سے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔ آج شاید کوئی ان کے اس دعوے سے متفق ہو لیکن اب زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ 8 تاریخ کو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ ووٹوں کے اضافے کی وجہ کیا رہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟