دہلی اسمبلی انتخابات نے کئی نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں!

جیسا کہ امید تھی ویسا ہی ہوا دہلی اسمبلی چناؤ میں ریکارڈ پولنگ ہوئی اور یہ 66 فیصد سے زیادہ ہوئی۔ پچھلے چناؤ2008ء میں 58.58فیصدی ووٹ پڑے تھے اس بار پانچ ریاستوں میں پولنگ کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ راجستھان میں 75.2فیصد ، مدھیہ پردیش 72.66فیصد، چھتیس گڑھ75 فیصد اور میزورم میں 81.19فیصد اور اب دہلی میں 66 فیصد پولنگ ہوئی ہے۔ اگر ہم دہلی کی بات کریں تو یہاں زیادہ ووٹ پڑنے کی کئی وجوہات دکھائی پڑتی ہیں۔ سب سے پہلے تو چناؤ کمیشن کی انتہائی کوشش مانی جاسکتی ہے۔دہلی چناؤ کمشنر وجے دیو اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے انہوں نے جو کہا وہ کر دکھایا۔ پولنگ کرنے جارہے ووٹروں کو اکثر دل میں یہ پریشانی ستاتی رہتی ہے کہ شناختی کارڈ نہیں ہے، کیا ہم ووٹ ڈال سکیں گے؟ کئی کے ووٹر فہرست سے نام ہی غائب ہوجاتا تھا۔ بہتوں کو پولنگ بوتھ تک پہنچے پر پتہ چلتا تھا کہ ان کا ووٹ ڈل چکا ہے۔پولنگ بوتھ میں موبائل لیکر جائیں یا نہیں کچھ ایسی دقتیں ووٹروں کواپنا ووٹ ڈالنے سے روکتی تھیں۔ انہیں باتوں کو ذہن میں رکھ کر دہلی چناؤ میں پہلی بار کچھ نئے قدم اٹھائے گئے۔ چناؤ کمیشن نے 70 سیٹوں کے سبھی پولنگ اسٹیشنوں کو گوگل میپ سے جوڑدیا اور اسٹیشن کو آپ گوگل سرچ میں جاکر دیکھ سکتے تھے۔ اس کا لنک چناؤ کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود تھا۔ اسمارٹ فون رکھنے والے مرکز تک پہنچنے کیلئے جی پی ایس کا استعمال کرنے کی سہولت تھی۔اگر آپ کے پاس ووٹر شاختی کارڈ نہیں ہے پھر بھی آپ ووٹ ڈال سکتے تھے۔ چناؤ کمیشن نے 10 طرح کے پہچان کاغذات کو تسلیم کیا۔ اس میں پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، بینک یا ڈاک گھر کی جاری فوٹو ،پاس بک وغیرہ وغیرہ۔ کمیشن نے ایس ایم ایس کے ذریعے پہلی بار ووٹر لسٹ میں نام جاننے کی سہولت دی تھی۔ اس مرتبہ شراب اور پیسے کا کام نہیں چل سکا۔ کل ملاکر ووٹ فیصد بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چناؤ کمیشن کے ٹھوس قدم۔ اس کے لئے چناؤ کمیشن مبارکباد کا مستحق ہے۔ اب بات کرتے ہیں ایگزٹ پول کی۔ چناؤ سے پہلے آئے چناؤ تجزیوں میں اور چناؤ کے بعد ایگزٹ پول کے نتیجوں میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو سب سے زیادہ سیٹیں ملنے کے امکان دکھایا گیا ہے۔ تھوڑا فرق ’آپ‘ پارٹی کی پرفارمینس میں ضرور دکھائی دیا۔ اس کو بہت اچھے ووٹ ملتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ اروند کیجریوال کی شاندار کامیابی ہے۔ اکیلے اپنے دم خم پر بھاجپا اور کانگریس جیسی بڑی پارٹیوں کے سامنے کھڑا ہونا آسان کام نہیں ہے۔ پھر نہ پیسے سے اور نہ تنظیم سے اور نہ پبلسٹی میں کیجریوال ان دونوں کا مقابلہ کرسکتے تھے لیکن پھر بھی وہ ڈٹے رہے اور اگر ایگزٹ پول کی بات صحیح نکلی تو عام آدمی پارٹی نے نہ صرف دونوں پارٹیوں کے ووٹ میں سیند لگانے میں کامیابی پائی بلکہ دہلی اسمبلی چناؤ میں پہلی بار ایک تیسرا متبادل کھڑا کردیا ہے۔ ابھی تک تو صرف بھاجپا اور کانگریس میں سیدھی ٹکر ہوا کرتی تھی۔ ایگزٹ پول میں عام آدمی پارٹی کو 6 سے لیکر31 سیٹیں جیتتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پارٹی کو8تاریخ کو پتہ چلے گا کہ اس کو کتنے فیصد ووٹ ملا ہے اور وہ کتنی سیٹیں جیت رہی ہے لیکن لگتا یہ ہے عام آدمی پارٹی کو جتنا بھی ووٹ ملا اس کا زیادہ تر حصہ کانگریس کے ووٹ کا ہے۔ بیشک بھاجپا کا ووٹ بھی اسے ملا لیکن زیادہ کانگریس کا ووٹ کٹنے کا امکان ہے۔ اگر اس چناؤ کا کوئی صاف پیغام ہے تو وہ یہ ہے مینڈیٹ حکمراں کانگریس کے خلاف ہے۔ یہ ووٹ تبدیلی کے لئے ہے۔ لوگ 15 سال سے کانگریس سرکار سے تنگ آچکے تھے۔ کانگریس جنتا سے پوری طرح کٹ چکی تھی اور یہ بات ہم بار بار بتاتے رہے ہیں لیکن کانگریس نے پرواہ نہیں کی۔ 
چاہے اشو مہنگائی کا رہا ہو چاہے کرپشن کا یا بجلی کا دہلی کے باشندے چیختے رہے لیکن کانگریس حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ نوجوانوں کو کانگریس سے زبردست مایوسی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کانگریس کی حکومت میں ان کا مستقبل محفوظ رہی ہے۔عورتیں دو مورچوں پر کانگریس سے سخت ناراض تھیں۔ سلامتی کے معاملے میں اور رسوئی کے معاملے میں۔ آلو، ٹماٹر، پیاز کی آسمان چھوتی قیمتوں نے گرہستنوں کا بجٹ بگاڑدیا تھا اور جنتا اس کمر توڑ مہنگائی کو کانگریس کے کرپشن سے سیدھا جوڑتی تھی۔ دکھ کی بات یہ بھی تھی کہ کانگریس سرکار نے اسے روکنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی۔ 15 برسوں میں ایک علاقہ جہاں بہت گراوٹ آئی وہ ہے میڈیکل سیکٹر۔ ہسپتال ،ڈاکٹر اتنے مہنگے ہوگئے کے عام آدمی اگر بیمار ہوجاتا تو سمجھو اسے تو موت ہی آگئی ہے۔ ذرا سی بیماری کے لئے لاکھوں کے بل بن جاتے تھے۔ بھاجپا کو ڈاکٹر ہرش وردھن کو بطور وزیر اعلی پیش کرنے کا فائدہ ملا۔ تنظیم میں کوئی اختلاف نہیں تھا سبھی نے اپنے اپنے سطح پر پوری طاقت لگائی۔ آر ایس ایس نے بھی اس بار کھل کر بھاجپا کی مدد کی ہے۔ نریندر مودی ایک بہت بڑا پلس پوائنٹ ثابت ہوا۔ نریندر مودی کی ریلیوں میں جس طرح نوجوان شامل ہوئے اس سے کانگریس کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔ راہل گاندھی کی فلاپ ریلی کے بعد کانگریس نے دہلی میں آخری سات دنوں میں پبلک جلسے کرنے کی ہمت نہیں دکھائی۔ ادھر مودی نے تابڑ توڑ ریلیاں کرکے بھاجپا کے حق میں ماحول بنایا۔ نوجوانوں کو مودی کی شکل میں ایک نئی امید دکھائی دے رہی ہے جو شاید صحیح پالیسیوں سے ان کا مستقبل سنوار سکے گی۔ اس چناؤ میں کانگریس مخالف لہر نظر آرہی ہے جو کانگریسی امیدوار جیتے گا وہ آسانی سے شخصی ساکھ اور عوامی رابطہ اور اپنے برتاؤ کے سبب جیتے گا۔ کئی معنوں میں یہ چناؤ الگ ہی تھا۔ اگر شیلا جی جیت جاتیں تو وہ پہلی کانگریس کی وزیر اعلی ہوتیں جو چوتھی بار اس عہدے پر فائض ہوتیں لیکن اب اس کا امکان کم لگ رہا ہے۔ چناؤ میں ہم نے دیکھا کہ ایک سابق افسر شاہ اور سماجی رضاکار اروند کیجریوال کی قیادت میں عام آدمی پارٹی نے چناوی لڑائی کو سہ رخی بنا دیا۔ اس پارٹی کے زیادہ تر لیڈر یا تو سماجی رضا کار، صحافی یا تعلیم سے جڑے ہیں جنہوں نے پہلی بار سوشل میڈیا کا اپنی بات ووٹر تک پہنچانے میں کامیابی پائی ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال بھاجپا نے بھی خوب کیا۔ پہلی بار نوجوان طاقت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا اور نوجوان ووٹر بھی ووٹ ڈالنے کیلئے گھر سے باہر نکلے۔ یہ سب باتیں ہندوستانی جمہوریت کے لئے اچھا اشارہ ہیں اور جنتا کا یوں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرنا اچھی علامت ہے۔
  1. (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!