نابالغ کیا اسی وجہ سے صاف چھوٹ جائے کیونکہ وہ نابالغ ہے؟

جب 16 دسمبر 2013ء کو وسنت وہار گینگ ریپ معاملہ ہوا تھا میں نے تبھی اپنے اسی کالم میں لکھا تھا کہ اس قتل کانڈ کے ماسٹر مائنڈ کو اس لئے نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ وہ نابالغ ہے اور اس کی عمر18 سال سے تھوڑی کم تھی۔ اب متاثرہ کے والدین نے اپنی سپریم کورٹ میں داخل عرضی میں اس سوال کواٹھایا ہے۔ عدالت نے پیرکو دہلی گینگ ریپ متاثرہ کے والد کی عرضی پر مرکزی حکومت کو نوٹس بھیج دیا ہے اور سرکار سے پوچھا ہے کہ آخر گھناؤنے جرائم میں شامل ملزمان کا نابالغ ہونا کیسے طے کیا جائے؟ متاثرہ کے والد نے اپنی عرضی میں جیونائل انصاف ایکٹ قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ قانون سنگین جرائم میں ملوث کمسنوں پر عام مقدمہ چلانے سے روکتا ہے۔ دہلی گینگ ریپ کا بنیادی ملزم نابالغ واقعے کے وقت ساڑھے ستارہ سال کا تھا جسے جیونائل انصاف بورڈ نے اپنی زیادہ سے زیادہ تین سال کی سزا دی تھی۔ ایسے میں وہ بڑی سزا سے بچ گیا۔ بہرحال عرضی پر سماعت کے بعد جسٹس بی۔ ایس چوہان کی بنچ نے مرکزی خواتین و اطفال ترقی وزارت کو چارہفتے کے اندر اپنا جواب داخل کرنے کوکہا ہے۔ اس معاملے میں اہم ملزم کی عمر اس کے گاؤں کے اسکول پرنسپل کے سرٹیفکیٹ کے مطابق جرم کے وقت 18 سال سے چھ مہینے کم تھی اس لئے اس کا مقدمہ بچوں کی عدالت میں چلانا پڑا۔ اسکے بعد ممبئی کے مقبول ترین شکتی مل آبروریزی کانڈ میں بھی کم عمر کے جرائم پیشہ کے ملوث ہونے نے اس بحث کو طول دے دیا۔ ایسی اور بھی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ میرا تو ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ جب ایک جرائم پیشہ شخص ایسے گھناؤنے واقعے کی پلانگ کرسکتا ہے اس پر عمل کرسکتا ہے جو بالغوں کی طرح ہوں ،وہ نابالغ کہاں رہ گیا؟ اس کی عمر کا جرم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک بالغ جرم ہے اور سزا بھی بالغوں جیسی ہونی چاہئے۔ ان واقعات کے پیش نظر سنگین جرائم کے معاملوں میں جیونائل کورٹ قانون پھر سے نظرثانی ضروری ہوگئی ہے۔ موجودہ قانو ن میں ترمیم ضروری ہے۔ خاتون و اطفال ترقی وزارت کی تجویز ہے کہ گھناؤنے جرائم کے معاملوں میں نابالغ کی عمر حد 18 سال کے بجائے16 سال طے کردی جائے۔ یہ قابل خیر مقدم تجویز ہے۔16 دسمبر کے واقعے کے بعد مرکزی حکومت نے جنسی تشدد سے متعلق قانون کے جائزے کیلئے سپریم کورٹ کے سابق جسٹس جے۔ ایس ورما کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔ اسکی سفارشوں کی بنیاد پر آئی پی سی میں ترمیم کیلئے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا اور پھرا س ترمیم کو بل کے ذریعے پارلیمنٹ میں منظوری ملی۔ بھارت میں ابھی تک18 سال سے کم عمر کے جرائم پیشہ کی وجہ سے کئی پریشانیاں کھڑی ہورہی ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہو رہا ہے کہ شاطر مجرم گروہ قتل یا ڈکیتی جیسے سنگین جرائم کے لئے بچوں کا استعمال سوچی سمجھی سازش کے تحت کرنے لگے ہیں کیونکہ اگر وہ پکڑے بھی گئے تو زیادہ سے زیادہ تین سال تک انہیں اصلاح گھر میں کاٹنے ہوں گے۔ پولیس کا کہنا ہے جرائم میں بچوں کا استعمال بڑھ رہا ہے بچوں کے اصلاحتی گھروں کی الگ پریشانیاں ہیں اس لئے کل ملاکر اس پیچیدہ اشو پر ملک گیر بحث ہونی چاہئے اور نابالغ کی عمر گھٹانے پر قانون میں ترمیم ضروری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟