اور اب راہل کانگریس :چنوتی تو اب شروع ہوگی

پہلے سے طے شدہ کہانی کے مطابق داغی لیڈروں کو بچانے پر متنازعہ آر ڈیننس کو وزیر اعظم منموہن سنگھ کی کیبنٹ نے واپس لے لیا ہے۔ یوپی اے حکومت اور کانگریس کور گروپ نے یو ٹرن لیتے ہوئے راہل گاندھی کے سامنے سرنڈر کردیا۔وہی ہوا جس کی کہانی راہل گاندھی نے 27 ستمبر کو لکھی تھی۔ آج بیشک کانگریسی سارا سہرہ راہل بابا کو دے رہے ہیں لیکن پورے واقعے سے کئی سوال اٹھ گئے ہیں۔ سب سے پہلا تو کانگریس کی اندرونی سیاست سے وابستہ ہے کیا اب ہم راہل ۔کانگریس کا دور دیکھنے والے ہیں؟ راہل کو پارٹی نے اس برس جنوری میں اپنا نائب صدر بنایا تھااور وہ اپنا امکانی لیڈر مان چکی ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کولیکر زیادہ ہی سرگرم ہیں اس لئے انہوں نے وزیر اعظم کے بیرونی دورے سے لوٹنے تک کا انتظار نہیں کیا۔بیچارے منموہن سنگھ اب تو انہیں بے عزتی ہونے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ داغی لیڈروں کو بچانے کے آرڈیننس پر وزیر اعظم کے پیچھے ہٹنے کے ساتھ ہی ایک بار پھر سونیا اور راہل گاندھی کا سرکار کے الٹے پڑے فیصلے کو بھی بے داغ بتا کر نکلنے کا سیاسی فارمولہ سامنے آگیا ہے۔ دراصل یوپی اے کے عہد میں کئی ایسے موقعے آئے ہیں جب عوام مخالف کاموں کا ٹھیکرا منموہن سنگھ پر پھوڑا گیا تو اچھے کاموں کاسہرہ سونیا اور راہل گاندھی کے حصے میں آیا ہے۔ صحیح ہو تو سونیا ۔راہل غلط ہو تو منموہن سنگھ۔ کانگریس کے اندر کئی سر کردہ لیڈروں میں راہل کے طریقے کی مخالفت ہورہی ہے۔ بھلے ہی یہ سینئر لیڈر فی الحال راہل کے نامناسب الفاظ کو برداشت کرنے کا گھونٹ پیئے ہوں لیکن سب کی نظریں 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں راہل کیسی کارکردگی پیش کرتے ہیں اس پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر راہل امیدوروں پر کھرے نہیں اترتے توممکن ہے کئی لیڈر کانگریس سے ہٹ جائیں یا وہ اپنی الگ پارٹی بنا لیں یا پھر کسی دوسری سیاسی پارٹی میں شامل ہوسکتے ہیں کیونکہ اپنے سے کہیں جونیئر کا اس طرح کا برتاؤ وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ خود وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سونیا سے اس بارے میں شکایت کی تھی کہ اگر راہل کو سرکار کے ذریعے لایا گیا آرڈیننس پسند نہیں تھا تو وہ خود اس بارے میں بات کرسکتے تھے یا پھرمہذب الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے بھی میڈیا سے اپنی بات کہہ سکتے تھے جس کے بعد ہی سونیا نے راہل کو سمجھایا کے اس طرح کے الفاظ سے وزیر اعظم کی بے عزتی ہوئی ہے اور انہیں اس طریقے کو بدلنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی راہل نے وزیر اعظم کو خط لکھا جس میں اپنی رائے اور پاک صاف ہونے کی بات کہی اور الفاظ پر افسوس ظاہر کیا لیکن معافی نہیں مانگی۔ یہ کچھ دن پہلے بابا رام دیو نے پیش گوئی کی تھی کہ راہل کانگریس کو تباہ کردیں گے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر یاتو اپنی الگ پارٹی بنا لیں گے یا پھر دوسری پارٹیوں کا رخ کرسکتے ہیں۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ راہل گاندھی کا اصلی امتحان تو اب ہوگا۔ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اب اشو ہے راہل بنام نریندر مودی، سزا یافتہ ایم پی اور ممبران اسمبلی کی ممبر شپ ختم ہونے سے فوراً سیاسی تجزئیے بھلے ہی الٹ پلٹ ہوجائیں لیکن سیاست کو جرائم سے پوری طرح پاک کرنا آسان نہیں ہے۔ راہل نے اب آگ میں ہاتھ ڈال دیا ہے دیکھیں جلتے ہیں یا بچتے ہیں؟ داؤپر ہوگی پانچ اسمبلی چناؤ میں کیا راہل اپنا طریق�ۂ کار بدلیں گے یا وہی درباری کلچر چلائیں گے؟ اب تک کئی موقعوں پر راہل گاندھی نے اپنے خیالات رکھے لیکن شاید ہی کسی معاملے میں کوئی موقف سامنے رکھا ہو؟لیکن شاید ہی کسی معاملے کا جائزہ لیا ہو؟ وہ دگوجے سنگھ ،مدھو سودن مستری، سی پی جوشی جیسے تنظیم کے لیڈروں سے غور وخوض کرتے ہیں لیکن سرکار میں شامل پی چدمبرم ، اے کے انٹونی، کپل سبل اور پالیسی طے کرنے والے بڑے وزرا کے ساتھ ایسا کرنے میں انہوں نے ابھی تک کوئی دلچسپی نہیں دکھائی یعنی تنظیم میں تو ان کی سرگرمی رہی لیکن سرکار کے کام کاج میں دخل سے اب تک انہوں نے خود کو دور رکھا ہے۔ پارٹی اور سرکار میں تال میل کی کمی صاف نظر آرہی ہے۔ اب تک تو راہل نے اس میں کمی نہ اضافہ کیا ہے ۔داغیوں سے متعلق آر ڈیننس کے بعد اب صاف ہوچکا ہے کہ سونیا کی کانگریس راہل کی کانگریس میں تبدیل ہوچکی ہے۔ راہل کو یہ پتہ چل چکا ہے کہ نریندر مودی بہت بڑی طاقت بن کر ابھر رہے ہیں۔ ان کی ریلیوں میں بھیڑ امڑ رہی ہے۔ بھیڑ کو دیکھ کر ان کی مقبولیت خاص کر نوجوانوں میں ناپی جاسکتی ہے۔ راہل کے سامنے سب سے بڑی چنوتی نہ صرف نریندر مودی ہیں بلکہ کچھ حد تک عام آدمی پارٹی بھی ہے۔ یہ اکیلی شہری پارٹی ہے اور کانگریس کواحساس ہوگیا ہے اس کا فروغ کانگریس کے لئے کھیل بگاڑ سکتا ہے۔ راہل کا امتحان تو اب شروع ہوگا دیکھیں وہ اپنی کانگریس کو آگے کیسے بڑھاتے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟