وقت وقت کی بات ہے :نائک سے کھلنائک بنے لالو پرساد!

وقت وقت کی بات ہوتی ہے کہ کہاں تو90 کی دہائی میں منڈل رتھ پر لالو پرساد یادو نے سماجی تبدیلی کا نعرہ دیتے ہوئے بہار میں اقتدار قائم کیا اور تقریباً دو دہائی تک ہندوستانی سیاست پر چھائے رہے آج وہی لالو جی چارا گھوٹالہ کیس میں قصوروار ہوکر سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے ہیں۔ چارا گھوٹالہ کی شکل میں سرکاری پیسے کی کھلی لوٹ کے ایک معاملے میں45 لوگوں سمیت لالو کو قصوروار قراردیا گیا ہے۔ سی بی آئی کی رانچی عدالت نے پیر کے روز اپنا فیصلہ سناتے ہوئے 8 قصورواروں کو تین تین سال کی سزا سنائی۔ لالو سمیت باقی37 افراد کی سزا پرفیصلہ 3 اکتوبر کو سنایا جائے گا۔ عدالت نے یہ فیصلہ چائیباسہ کو باغبانی سے فرضی ڈھنگ سے 37.7 کروڑ روپے نکالنے کے معاملے میں سنایا ہے۔ چارا گھوٹالے سے جڑے پانچ معاملوں کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سنایاہے۔ ایسے چار معاملوں میں ابھی الگ الگ عدالتوں کو فیصلہ آنا باقی ہے۔950 کروڑ روپے کو ناجائزطور پر نکالنا کا ہے۔ پورا چارا گھوٹالے میں لالو کے ساتھ ایک دیگر سابق وزیر اعلی جگن ناتھ مشر اور کچھ دیگر لیڈروں کے سلاخوں کے پیچھے پہنچنے کے باوجودعام جنتا یہ سوال پوچھ رہی ہے آخر کرپشن کے اس معاملے کو 17 سال کیوں لگے؟ بتایا جاتا ہے کہ جنتا محسوس کرنے لگی ہے کہ گھوٹالوں میں پھنسے نیتاؤں کے معاملے کا نپٹارہ ویٹ سے ہوتا ہے۔ کئی بار یہ تاریخ کی شکل لے لیتا ہے اورقانون کے ہاتھ غیر ضروری طور پر لمبے نظر آنے لگتے ہیں۔ آج بھلے ہی مختلف پارٹیوں کے نیتا یہ کہہ رہے ہوں کہ انصاف کی جیت ہوئی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ لالو یادو کو قانون کے چنگل سے بچانے کے لئے وقتاً فوقتاً ہر سطح پر کوشش ہوتی رہی ہے۔ سی بی آئی پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے سے لیکر لالو یادو کو سیاسی طور سے طاقت دینے کی کوشش بھلے ہی ایک غیرمتوقع حالات کے بعد کانگریس اس آرڈیننس کے خلاف کھڑی نظر آرہی ہے جو لالو کو راحت دے سکتا تھا لیکن کیا اس میں شبہ ہے کہ اسے مفاد پر مبنی سیاست کو پورا کرنے اور خاص طور سے لالو یادو کو بچانے کے لئے ہی لایا گیا تھا؟ ڈھائی دہائی تک لالو ہیرو تھے جن کی شہرت دنیا بھر میں تھی، ان کو ہارڈ ورڈ یونیورسٹی سے لیکچر دینے کے لئے بلایا جاتا تھا، آج وہ کھلنائک بن گئے ہیں۔ جے پرکاش نارائن کی سمپورن کرانتی کی دشا دشا کے نتیجے کی شکل میں آئے اور انہوں نے پسماندہ دلتوں کی طاقت کے بوتے براہمنوں کی بالادستی والی اس وقت کے سیاسی نظام کا چہرہ بدل دیا ۔افسوس لالو نے چہرہ تو بدل دیا لیکن دل نہیں بدل پائے۔ تبدیلی کی حکمت عملی بانٹنے کی سیاست میں بدل دی۔جس وقت طاقت کے زور پر ایسا انقلاب آیا تھا اس میں اپنی شخصی طاقت کی خوش فہمی ہونے لگی تھی ۔ نتیجہ لالو کی پارٹی بھی ان دقیانوسیوں سے آراستہ ہونے لگی جس کے سبب کبھی کانگریس کی درگتی ہوئی تھی۔ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ لالو کمزور پسماندہ طبقے کو طاقت دلانے کا خواب دکھا کر اقتدار میں آئے اور وہ انتہائی پچھڑے قبائلیوں کے حصے کا پشو چارا ہڑپنے کے الزام میںآج جیل میں گئے ہیں۔ ایسے حالات میں لالو کے جیل جانے کے بعد ان کی پارٹی کا وجود بچا رہ پائے گا اس میں شبہ ہے۔ کیونکہ بیوی اور اولادوں کے بھروسے لیڈرشپ کتنی چل پائے گی وقت بتائے گا۔ لالو جیسے اثر دار لیڈر کے جیل جانے سے سیاست کو پاک صاف کرنے میں مدد ملے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟