رائٹ ٹو ریجیکٹ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ میل کا پتھر!

سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں چناؤ اصلاحات کی سمت میں ایک اہم فیصلہ دیا ہے جس کا سبھی خیر مقدم کریں گے۔ سپریم کورٹ نے ووٹر کو امیدوار کو مسترد کرنے کا حق دیا ہے۔ اگر چناؤ میں کھڑا کوئی بھی امیدوار اس کو پسند نہیں آتا تو ووٹر اس کو مسترد کرسکتا ہے۔ عدالت نے چناؤ کمیشن کو ہدایت دی ہے کہ وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں موجود بٹن میں سے کوئی ایسا نہیں بلکہ مسترد کرنے کا بٹن اس میں دستیاب کرائے حالانکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کا چناؤ کارروائی پر کوئی سیدھا اثر تو نہیں ہوگا لیکن اس سے سیاسی پارٹیوں پر اچھے اور ایماندار امیدوار اتارنے کا دباؤ ضرور بنے گا۔ عدالت نے صاف کیا کہ جمہوریت میں ووٹر کو اپنے ناپسندیدہ امیدوار کو مسترد کرنے کا حق ملنا ضروری ہے تاکہ سیاسی پارٹیاں اچھے امیدوار کھڑے کرنے کے لئے مجبور ہوں۔ چیف جسٹس پی سنت شیوم کی سربراہی والی بنچ نے ایک غیر سرکاری تنظیم پی یو سی ایل کی عرضی پر دئے گئے فیصلے میں کہا کہ اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی یہ فیصلہ ہر نقطہ نظر سے تاریخی اور جمہوریت کو اس کی طاقت کا احساس دلانے والا فیصلہ ہے۔ اس کے مثبت نتائج سامنے آنے کی امید ہے اور ان ووٹروں میں حوصلہ بڑھے گا جو موجودہ سیاسی ماحول سے مایوس ہوکر ووٹ ڈالنے نہیں جاتے۔ چناؤ میں ووٹنگ گراف بڑھانے کے لئے چناؤ کمیشن کو ہر بار خاصی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ جمہوریت کے اس میلے میں زیادہ سے زیادہ لوگ ووٹ کرنے نکلیں گے تبھی ووٹ فیصد بڑھانے کی کمیشن کی کوشش کامیاب ہوگی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ووٹروں کا ایک طبقہ یہ مان کر چلتا ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ سارے امیدوار ایک جیسے ہیں۔ کوئی بھی جیتے حالات بدلنے والے نہیں ہیں۔ سبھی امیدواروں کو مسترد کرنے کا اختیار ملنے سے سیاسی پارٹیوں میں یہ پیغام جائے گا کہ ووٹروں پر امیدوار تھونپنے کا کام نہیں کرسکتیں۔اگر سیاسی پارٹیاں رکاوٹ نہ ڈالیں تو یہ بالکل ممکن ہے کہ اگلے عام چناؤ یا اس سے پہلے پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں امیدواروں سے نا خوش ووٹر کسی کو ووٹ نہ ڈالیں اور اس کی شناخت بھی راز میں رہے۔ رائٹ ٹو ریجیکٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ووٹ کرنا ہمارا آئینی حق ہے ایسے میں امیدواروں کو مسترد کرنے کی بھی اظہار آزادی کے حق کے تحت آتا ہے۔ چناؤ کمیشن نے تو 2001ء میں ہی تجویز مرکزی سرکار کو بھیجی تھی لیکن تمام سرکاریں اسے دبائے بیٹھی رہیں۔ جمہوریت میں نمائندے چننے کا حق جب ووٹر کے پاس ہے تو اس کو خارج کرنے کے حق سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے؟ بہتر ہو کے سبھی سیاسی پارٹیاں یہ سمجھیں کہ سیاسی اور چناوی عمل میں اصلاحات لائے بغیر ان کا کام اب چلنے والا نہیں۔ سیاسی پارٹیوں اورسیاستدانوں کی ساکھ مسلسل گرتی جارہی ہے اس بات کو انہیں سمجھنا ضروری ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ سبھی پارٹیاں چناؤ اصلاحات کی بات تو کرتی ہیں لیکن انہیں لاگو کرنے سے کتراتی ہیں اور سبھی ایسے امیدوار چنتی ہیں جو بیشک مجرمانہ ساکھ کے کیوں نہ ہو لیکن سیٹ نکال سکتے ہوں ایسے میں سیاسی پارٹیوں کے لئے بہتر یہ ہی ہوگا کہ اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے اور ووٹروں کے تئیں زیادہ سے زیادہ ذمہ دار اور وفادار بنیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!