آرڈیننس بکواس ،پھاڑ کر پھینکو راہل کاماسٹر اسٹروک؟

کانگریس کے نائب صدر و یووراج راہل گاندھی نے جمعہ کے روز اچانک بغیر کسی پہلے سے طے دہ پروگرام و اطلاع کے نئی دہلی پریس کلب پہنچ کر موجود لوگوں کو چونکا دیا۔طے شدہ پروگرام کے مطابق کانگریس کے میڈیا انچارج ممبر پارلیمنٹ اجے ماکن نے ’’میٹ دی پریس‘‘ کا پروگرام رکھا تھا۔ پریس کانفرنس کے دوران ماکن کو ایک ٹیلیفون آیا وہ باہر نکل کر چلے گئے۔ کچھ منٹوں میں انہوں نے لوٹ کر بتایا پارٹی نائب صدر راہل گاندھی کا فون تھا ،وہ خود آرہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ راہل نے یوں ہی اینٹری کیوں لی؟ کیوں پریس کلب کے اسٹیج کو چنا! خیر انہوں نے آخر پریس والوں کو اور چونکا دیا جب انہوں نے کہا سزا یافتہ ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کی ممبر شپ برقرار رکھنے لئے لائے گئے متنازعہ آرڈیننس بکواس ہے ،اسے پھاڑ پھینکو۔ راہل گاندھی کی بات سن کر سب ہکے بکے رہ گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ پریس والوں کے سوالوں کا جواب دیتے وہ اٹھ کر چلے گئے۔ راہل سے ٹھیک پہلے اسی پریس کانفرنس میں اجے ماکن سرکار کا بچاؤ کررہے تھے اور بھاجپا پر دوہرا پیمانہ اپنانے کا الزام لگا رہے تھے۔ اتنا ہی نہیں صدر کے آرڈیننس روکنے اور دگوجے سنگھ اور ملن دیوڑا اور سندیپ دیکشت جیسے لیڈروں کی مخالفت پر منیش تیواری نے سب کو ہدایت دی تھی کہ وہ پہلے آرڈیننس کو باریکی سے دیکھیں اور پھر رائے زنی کریں۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اس آرڈیننس کو لیکر منموہن سرکار اور کانگریس پارٹی کے کان جمعرات کو ہی کھڑے ہوگئے تھے جب صدر پرنب مکھرجی نے مرکز کے تین وزرا کو طلب کر پوچھا تھا کہ آخر داغیوں کو بچانے کے لئے اس آرڈیننس کی کیا ضرورت پڑ گئی؟ راہل نے جن تیوروں میں سرکار کے فیصلے کی مخالفت کی اس سے حکومت نہ صرف دو پاور سینٹر میں ابھرکر آگئی ہے بلکہ سرکار اور پارٹی کے بیچ تال میل کی کمی سامنے آئی ہے۔حالیہ دنوں میں سرکار کے اندر دو پاور سینٹر کی بات پارٹی جنرل سکریٹری دگوجے سنگھ بھی کئی بات اٹھا چکے ہیں لیکن ہر بار پارٹی و سرکار نے اس سے انکار کیا۔ حالانکہ پریس کلب سے راہل گاندھی کے جانے کے بعد اجے ماکن نے اس سوال کو ٹال دیا کے کیا راہل کی تنقید کے دائرے میں وزیر اعظم آتے ہیں۔ راہل کے تبصرے پر منموہن سنگھ کو نیویارک سے ہی ٹوئٹ کرنا پڑا۔ کہا کہ کانگریس نائب صدر نے مجھے چٹھی لکھی تھی یہ آرڈیننس لوگوں کے بیچ بحث کا اشو بن گیا ہے۔ سرکار کو ان باتوں کی جانکاری ہے وطن لوٹ کر اس کے بارے میں کیبنٹ میں غور و خوض ہوگا۔ ایک نوجوان کانگریسی جو راہل خیمے سے تعلق رکھتا ہے، کہنا ہے کہ یہ راہل کا ماسٹر اسٹروک ہے۔کانگریس نے لالو پرساد یادو، رشید مسعود سمیت ان سبھی لیڈروں پر جن پر یہ ترمیم نافذ ہوتی ہے کو بچانے کے لئے کوشش کی ہے۔ کانگریسی لالو کو کہہ سکتے ہیں دیکھو ہم نے تو کوشش کی مگر اس کی چوطرفہ مخالفت ہورہی ہے تو ہم مجبور ہیں۔ وہیں راہل نے ایسا کرکے بیک فٹ پر چلے آرہے خودکوکانگریس پارٹی میں فرنٹ فٹ پر لانے کی چال چلی ہے۔ ساتھ ہی راہل نے خودکو عام آدمی کے ساتھ خاص کر نوجوان طبقے کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے وہ بھی ان کے درمیان کے ہی آدمی ہیں۔ راہل نے اس عام آدمی کی آواز میں آواز ملانے کی کوشش کی ہے جو سیاست میں جرائم پیشہ اورکرپشن میں لگے لوگوں سے تنگ آچکے ہیں۔ راہل گاندھی اترپردیش اسمبلی چناؤ کے سے کچھ صدمے میں چل رہے تھے۔ اس دوران بھاجپا کے نریندر مودی کا قومی منظر پر عروج ہوا اور مودی تیزی سے چھا گئے۔ نوجوانوں میں راہل کا کریز کم ہوا ہے اور نریندر مودی کا بڑھتا جارہا ہے۔ آج نریندر مودی کے سامنے راہل بونے پڑ رہے ہیں۔نوجوانوں میں پھر پیٹ بنانے کے لئے راہل نے داغی ممبران کے بیحد حساس ترین اشو کو اٹھانے کی حکمت عملی بنائی اور ان کی تحریک سے پہلے دلتوں کے گھر روٹی کھانا،گاؤں میں رات گزارنا، یہاں پارسول کے کسانوں کے ساتھ کھڑے ہونے، ٹرین میں عام آدمی کے ساتھ سفر کرنے جیسے قدموں سے ان کی اچھی ساکھ بن رہی تھی لیکن راہل نے کسی اشو کو پورا نہیں کیا۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ راہل سیاست میں آنے کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔ کبھی کبھی ایسی صورت میں نریندر مودی اور اونچائی پر جارہے ہیں۔ راہل کے تازہ بیان سے ایک بار پھر منموہن سنگھ اور ان کی سرکار الجھن کی حالت میں پڑ گئی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں جب سرکار اور تنظیم کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں کول گیٹ معاملے میں وزیر قانون اشونی کماراور رشوت معاملے میں ریل منتری پون بنسل کے استعفے میں دیر پر بھی کانگریس صدر سونیا گاندھی نے سخت ناراضگی ظاہر کی تھی۔ منموہن سنگھ نے دونوں وزیروں کا بچاؤکیا تھا۔ پچھلے سال مرکزی سرکار نے ایل پی جی کی قیمتوں میں بھاری اضافہ کیا تو اس پر کانگریس سرکار نے ناراضگی ظاہر کی۔ نتیجتاً رسوئی گیس کی لمٹ بڑھا دی گئی۔ فوڈ سکیورٹی بل کا معاملہ کیبنٹ میں بار بار پیش نہ کئے جانے پر سونیا گاندھی نے سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے اس بارے میں پردھان منتری کو خط لکھا تھا۔ فوڈ سکیورٹی بل سونیا کا ڈریم بل مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ زیر اعظم اقتصادی وجوہات کے سبب اسے ٹالنا چاہتے تھے۔ راہل گاندھی کا یہ ماسٹر اسٹروک ہے یا نہیں اب آپ خود فیصلہ کرلیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟