کیا مظفر نگر فسادات کے سبب مسلم ووٹ کا پولارائزیشن ہوگا؟

اترپردیش میں فرقہ وارانہ فسادات اور جھگڑا رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ مظفر نگر فسادات کے ایک مہینے کے بعد مغربی اترپردیش پھر سے سلگ اٹھا ہے۔ سردھنہ سے بھاجپا ممبر اسمبلی سنگیت سوم کی گرفتاری اور ان پر نیشنل سکیورٹی ایکٹ لگانے کے احتجاج میں ایتوار کو کھیڑا گاؤں کی مہا پنچایت پر روک کے باوجود 20 ہزار لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی اور حالات اس قدر بگڑے کے بھیڑ مشتعل ہوگئی۔ اعلی افسروں کی گاڑیوں سمیت64 سرکاری گاڑیاں روڈ ویز بسوں کو توڑ پھوڑ کی اور چار گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔ بھیڑ پر قابو کرنے کے لئے پولیس کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس اور فائرننگ کرنا پڑی۔ اس میں ایس پی کرائم سمیت27 پولیس والے اور دیگر 8 لوگ زخمی ہوگئے۔ ان دنگوں کا سیاسی نتیجہ بھی ہوگا۔ لوک سبھا چناؤ ابھی دور ہیں۔ مظفر نگر فسادات کے بعد پورے دیش کے مسلم ووٹ کی پولارائزیشن کا تذکرہ ابھی سے شروع ہوگیا ہے۔ مسلم ووٹوں کا اثر 120 سیٹوں پرہے اس لئے سیکولر پارٹیوں کے درمیان نئی کھچڑی پکتی آرہی ہے۔ اترپردیش،بہار ہی نہیں مغربی بنگال ،مہاراشٹر اور آسام میں بھی مسلم ووٹوں کے کم معنی نہیں ہیں۔ جہاں ان کی تعداد 10 فیصدی سے زیادہ ہے۔ لالو پرساد یادو کے جیل جانے سے آر جے ڈی کا مسلم ووٹ فائدے مند ہوسکتا۔ بڑے مسلم لیڈر محمود مدنی کی تنظیم جمعیت العلمائے ہند کے سکریٹری نیاز فاروق نے کہا کہ مظفر نگر فسادات کو لیکر پورے دیش کے مسلمانوں میں غصہ ہے اور یہ مسلم پولارائزیشن کا سبب بن سکتا ہے جب ان سے پوچھا گیا کیاصرف اترپردیش میں یا پھر پورے دیش میں تو انہوں نے کہا اس کا پورے ملک میں اثر ہوسکتا ہے۔ کیا اس فساد کے بعد اترپردیش میں کانگریس اور بسپا کے بیچ چناوی تال میل ہوسکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے لیکن ابھی کسی فیصلے تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ مولانا نیاز فاروقی نے کہا کہ مسلم ووٹ کا اثر100-120 سیٹوں پر بہت زیادہ ہے اس لئے اپنے کو سیکولر کہنے والی پارٹیاں کیسے خاموش رہ سکتی ہیں۔ مظفر نگر، سہارنپور، دیوبند ، امروہہ، مراد آباد، علی گڑھ جیسے دیش کی کئی لوک سبھا سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹ 30 سے35 فیصدی ہیں۔ سینٹر فار اسٹڈی آف سوشل اسٹڈی کے پروفیسر آنند کمار کا کہنا ہے کہ ان فسادات سے مسلم ووٹوں کا پولارائزیشن اترپردیش اور اس سے لگے ہریانہ میں زیادہ اور مدھیہ پردیش راجستھان میں تھوڑا ہوگا۔ ہر حلقے کے اپنے مسائل ہیں اس لئے جنوبی ہندوستان ،کشمیر، آسام اور مغربی بنگال میں پولارائزیشن کا امکان نہیں ہے۔ اتنا تو طے ہے کہ اترپردیش کی سماجوادی پارٹی سرکار سے مسلم ووٹ کھسک سکتا ہے۔ بہت غور کرنے لائق بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اس وزیر اعلی کو کالے جھنڈے دکھائے گئے جنہوں نے بہت زور شور سے ووٹ دیکر اکھلیش یادو سرکار بنوائی تھی۔ یہ بہت اہم ہے اس لئے اتنے تھوڑے وقت کی حکومت میں اس سے پہلے کسی لیڈر کی مقبولیت میں ایسی گراوٹ نہیں آئی ہے۔ خود اکھلیش کہتے پھر رہے ہیں کہ میری حکومت کو کارناموں کے لئے نہیں بلکہ مظفر نگر فسادات کے لئے یاد کیا جائے گا۔ چاروں صوبوں میں جہاں مسلم ووٹ اہم ہے وہ ہیں اترپردیش 18.5فیصدی، بہار16.5فیصدی، مغربی بنگال25.2 ، مہاراشٹر 10فیصدی ، آسام میں بھی مسلم ووٹ کافی اثر دار ہے۔دیکھنا اب یہ ہے کہ فسادات کا مسلمانوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!