ریپبلکن ڈیموکریٹس کے درمیان اختلاف کے سبب امریکہ میں کام بندی!

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور سب سے طاقتور اور خوشحال دیش ہے۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں سرکار کا اتنا زوال ہوسکتا ہے لیکن ایسا ہورہا ہے۔ امریکی سرکار نے جزوی طور پر کام بندی شروع کردی ہے۔ پچھلی مرتبہ امریکی حکومت میں کام بندی 16 دسمبر1995ء سے 6 جنوری1996ء تک ہوئی تھی۔ تب بل کلنٹن صدر ہوا کرتے تھے۔ یہ حالات 21 دن تک بنے رہے تھے۔ سرکار شٹ ڈاؤن کے حالات امریکی جمہوری نظام کی دین ہے۔ یہاں صدر ملک اور سرکار کا سربراہ ہوتا ہے لیکن آئین سازیہ میں اس کی اکثریت کی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ ہے کہ صدر کانگریس اور سینیٹ کے چناؤ الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہر سال 30 دسمبر تک امریکی کانگریس (ہندوستانی لوک سبھا کی طرح) اگلے سال تک کے لئے بجٹ پاس کرتی ہے۔ سرکار کو بجٹ پاس ہونے کے بعد اپنے پروگرام چلانے کے لئے پیسہ ملتا ہے۔ اگر بجٹ اٹک جائے تو سرکار کے پاس پیسہ نہیں ہوتا۔ سارا جھگڑا ’اوبامہ کیئر‘ نامی اسکیم کو لیکر کھڑا ہوگیا ہے۔ 2010ء میں براک اوبامہ نیا قانون لائے۔ ’’پیشنٹ پروٹیکشن اینڈ افورڈیبل کیئر ایکٹ‘ اس قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ امریکیوں کو صحت بیمہ کور اسکیم میں لانا تھا۔ صحت پرہونے والا عام خرچ گھٹانا تھا۔ ایوان نمائندگان نے متنازعہ اوبامہ کیئر کو ایک سال تک ٹال دیا ہے ساتھ ہی اس میں آئینی تجویز پاس کی ہے۔ میڈیکل ڈیوائز ٹیکس کو بھی ہٹانے کو کہا گیا ہے یہ سینیٹ اور اوبامہ کو گوارا نہیں ہے۔ شٹ ڈاؤن کی صورتحال اس لئے پیدا ہوئی کیونکہ ریپبلکن پارٹی کی رہنمائی میں سینیٹ نے اگلے سال کے بجٹ کو منظوری نہیں دی ہے۔ اوبامہ نے آخری وقت میں تعطل ختم کرنے کی اپیل کی تھی لیکن اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ بیشک اوبامہ اور اپوزیشن ریپبلکن پارٹی کے درمیان اتفاق رائے نہ ہوپانے کے سبب امریکی پارلیمنٹ سے طے میعاد 30 ستمبر رات12 بجے تک بجٹ بل پاس نہیں ہوسکا تھا۔ اس کی وجہ سے امریکہ میں 17 سال بعد ایک بار پھر شٹ ڈاؤن یعنی غیر ضروری سرکاری کام کاج بند کردئے گئے ہیں۔ کئی سرکاری دفتر ، میوزیم، نیشنل پارک بند کردئے گئے ہیں اور قریب7 لاکھ سے زیادہ سرکاری ملازمین کو زبردستی بغیر تنخواہ کے چھٹی پر بھیج دیا گیا۔ صدر کے دفتر نے فیڈرل ایجنسیوں کو کام بند کرنے کے احکامات بھیجنے شروع کردئے ہیں۔ امریکی فیڈرل حکومت میں 21 لاکھ کرمچاری ہیں اس میں سے 8 لاکھ کرمچاریوں کو بغیر تنخواہ چھٹی پر بھیجا گیا ہے۔ کام بندی کا اثر بچوں کی فیس اور کھانے پینے پر بھی پڑے گا۔ اگر بحران زیادہ دن چلا تو فوجی کارروائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ کام بندی کا اثر کم ہو اس کے لئے امریکی صدر براک اوبامہ نے امکانی اقدامات پر کام کرنا بند کردیا ہے۔ انہوں نے ایسے بل پر دستخط کئے ہیں جس سے کام بندی کے دوران فوج کو بجٹ دیا جاسکے۔ اوبامہ نے کہا شٹ ڈاؤن کو پوری طرح سے دور کرنا ممکن تھا لیکن اپوزیشن کا تعاون نہ ملنے کے چلتے یہ ممکن نہ پایا۔ ایوان نمائندگان میں ریپبلکن ممبران اور سینیٹ میں ان کے ساتھیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس قانون کو واپس لیا جائے اور غیر ضروری خرچ کے لئے پیسہ نہ دیا جائے۔ وہ تبھی سرکاری خرچ کے لئے بل پاس کریں گے۔فی الحال اوبامہ اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ جلد تعطل ختم ہوگا اور امریکی معیشت پٹری پر لوٹے گی۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟