داغی نمبر ون بنے مسعود: چار سال کی جیل ممبری بھی گئی

داغی ممبران پارلیمنٹ اور ممبر اسمبلی کو بچانے والا قانون منسوخ ہوگیا ہے۔ پارلیمنٹ سے آخر کار داغی دور ہونے لگے ہیں۔ کانگریس کے راجیہ سبھا ممبر رشید مسعود سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے پہلے شکار بنے ہیں۔ عدالت سے چار سال کی جیل کی سزا ہوتے ہی وہ راجیہ سبھا سے نااہل ہوگئے ہیں۔ ان کا ابھی پانچ سال کا وقت بچا تھا۔ آر جے ڈی چیف لالویادو بھی کرپشن کے جرم میں قصوروار ٹھہرادئے گئے ہیں اور ان کو چار سال کی جیل ہوگئی ہے۔ کرپشن سمیت درجن بھر چنندہ جرائم میں صرف قصوروار ٹھہرایا جانا ہی ممبر شپ سے نااہل بنا دیتا ہے۔ چاہے سزا صرف جرمانے تک ہی کیوں نہ ہو اس کے علاوہ کسی بھی جرم میں دو برس یا اس سے زیادہ کی سزا ہونے پر وہ شخص نہ صرف سزا سنائے جانے کی تاریخ سے ایوان کی ممبری سے نااہل ہوجائے گا بلکہ سزا کاٹ کر جیل سے باہر آنے کے 6 سال تک چناؤ نہیں لڑ سکے گا۔ ایسے میں مسعود کی نہ صرف راجیہ سبھا ممبری گئی بلکہ وہ اگلا چناؤ بھی نہیں لڑ پائیں گے۔ اگر ابھی عدالت میں اپیل پر ان کی سزا پر روک لگادیتی ہے تو وہ اگلا چناؤ لڑ سکتے ہیں لیکن ممبر شپ چلی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے کئی سینئر لیڈروں پر تلوار لٹک گئی ہے۔ اثاثے سے زیادہ آمدنی کے معاملے میں مایاوتی اور سپا سے ممبر اسمبلی متر سین یادو پر 36 مقدمے چل رہے ہیں جن میں سے14 قتل کے معاملے ہیں۔ ڈان برجیش سنگھ کے بھتیجے اور آزاد ممبر اسمبلی سنیل سنگھ پر 20 معاملے درج ہیں۔ بھاجپا نیتا کلیان سنگھ ،اوما بھارتی، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی پر ایودھیا میں متنازعہ ڈھانچہ معاملے میں مقدمہ چل رہا ہے۔ مؤ سے قومی ایکتا پارٹی سے ممبر اسمبلی مختار انصاری پر قتل کے8 معاملوں سمیت15 مقدمے چل رہے ہیں۔یہ تو صرف اترپردیش کے ہیں پورے دیش میں تو درجنوں مقدمے چل رہے ہیں۔ رشید مسعود کانگریس کے لئے ہی بوجھ ثابت ہوئے۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ میں کانگریس کی نیا پار لگانے کے مقصد سے سپا سے کانگریس میں آئے مسعود پارٹی کے کام نہیں آئے الٹا پارٹی کی بدنامی اور ہوگئی۔ مسعود کے گڑھ مانے جانے والے مغربی اترپردیش میں بھی پارٹی کی سیٹوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ مغربی اترپردیش میں مسلم ووٹوں کے سہاتے مسعود سیٹیں جتا سکیں یہ پارٹی کا سپنا پورا نہیں ہوا۔ وہ دوسرے امیدواروں کو تو کیا جتاتے ان کا جو بھتیجے پہلے سے ہی ممبر اسمبلی تھا وہ بھی کانگریس کے ٹکٹ پر چناؤ ہار گیا۔ پچھلے کافی عرصے سے مسعود کانگریس کی حمایت کرتے ہوئے اوٹ پٹانگ بیان بھی دینے لگے تھے۔ دراصل راہل گاندھی کے چہیتے بننے کا کوئی موقعہ نہیں گنوانا چاہتے تھے۔ پچھلے دنوں جب مہنگائی کو لیکر اپوزیشن نے یوپی حکومت کی نکتہ چینی کی تھی تو مسعود نے چمچا گری کی حدیں پار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہلی میں پانچ روپے میں کوئی بھی بھر پیٹ کھانا کھاسکتاہے۔اب تہاڑ میں مسعود صاحب کو فری کھانا ملے گا۔ پانچ روپے میں خرچ نہیں کرنے پڑیں گے۔ مسعود صاحب نے کئی بار عدالت میں رحم کی اپیل لگائی لیکن عدالت نے انہیں خارج کردیا۔ 67 سالہ مسعود کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے30 سال سے ایم پی رہتے ہوئے دیش کی سیوا کی ہے اور قانون کی تعمیل کی ہے۔انہوں نے اپنی عمر اور تمام بیماریوں کا بھی حوالہ دیا لیکن سی بی آئی وکیل نے عدالت سے مطالبہ کیا کے مسعود کے جرم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی جائے۔ مسعود کی وجہ سے کئی ہونہار طلبا کا کیریئر چوپٹ ہوا۔ قانون بنانے والا ہوتے ہوئے انہوں نے قانون توڑے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟