مدنی کی کھری کھری:مودی کے نام پر مسلمانوں کو نہ ڈرائیں

جمعیت العلماء ہند کے لیڈر سید مولانا محمود مدنی کے تازہ بیان سے سیاسی بیان بازی شروع ہوگئی ہے۔ بیان ہی کچھ ایسا تھا۔ بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی کا ڈر دکھا کر ووٹ مانگنے پر سیکولر پارٹیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مولانا محمود مدنی نے سیدھا الزام لگایا کہ ووٹ کیلئے سماج کو مذہب کے نام پر بانٹنے سے باز آئیں۔ پارٹی کو کسی دوسری پارٹی کے اقتدار میں آنے کا ڈر دکھا کر ووٹروں کو لبھانے کے بجائے اپنے کارناموں پر زیادہ مرکوز کرنا چاہئے۔ محمود مدنی نے کہا کہ ان نام نہادسیکولر پارٹیوں کو ایجنڈا اور چناؤ منشور میں صاف کرنا چاہئے کہ وہ جنتا کے لئے کیا کرنا چاہتے ہیں اور ان پارٹیوں کو بتانا چاہئے کہ مختلف ریاستوں میں ان کی سرکاروں نے کیا کام کیا ہے۔ انہوں نے کن کن وعدوں کو پورا کیا ہے اور کون کون سے وعدے ادھورے رہ گئے ہیں۔ انہیں اس بنیاد پر ووٹ مانگنا چاہئے نہ کے کسی کے اقتدار میں آنے کا ہوا کھڑا کرکے سبھی پارٹیوں کو منفی سیاسی نہیں کرنی چاہئے بلکہ لوگوں کو مطلع کرنا چاہئے کہ کیا انہوں نے یکساں مواقع دئے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ دیش میں سیکولرزم کی جڑیں بہت گہری ہیں اور مسلمانوں کو مودی کے ڈر سے کسی کو ووٹ دینے کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ مولانا نے کانگریس پر سیدھا حملہ تو نہیں کیا مگر ان کے نشانے پر کانگریس ہی تھی۔ مولانا کی باتوں سے ہم متفق ہیں۔ ان کے مقصد کچھ بھی رہے ہوں لیکن جو انہوں نے کہا وہ صحیح کہا۔ مذہب کے نام پر دیش کی سیاست کرنا سراسر غلط ہے اور مولانا مدنی اس بات کو کہنے کی ہمت دکھانے والے پہلے مذہبی پیشوا ہیں۔ اس لحاظ سے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ رہی بات نریندر مودی کی تو مولانا نے اتنی چالاکی ضرور برتی کے انہوں نے مودی کی حمایت میں سیدھا تو کچھ نہیں کہا لیکن یہ کہنا کہ مسلمانوں کو مودی قبول ہیں یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا۔ اپنے آپ میں خاص ہوجاتا ہے کہ یہ صحیح کہا کہ دیش میں سیکولرزم کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اس کے خلاف جانے والے کوئی نیتا یا پارٹی عوام کو قبول نہیں ہوگی لیکن مسلمانوں کو ان کی یہ صلاح کے مودی کو وزیر اعظم بننے کے امکان سے وہ فکر مند نہ ہوں اتنا تو بتا رہا ہے کہ سیاسی ہوا کس طرف بہہ رہی ہے۔ چناوی موسم میں مدنی کے الزامات نے کانگریس کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔دراصل مودی کے بھاجپا کی طرف سے پی ایم عہدے کے امیدوار کے طور پر سامنے آنے کے بعد فرقہ وارانہ بنام سیکولرزم کی سیاسی کی ہوا بہہ رہی ہے۔ کانگریس فرقہ پرست بھاجپا کو اقتدار سے دور رکھنے کے نام پر سیکولر طاقتوں کو متحد ہونے کی اپیل کررہی ہے۔ یہ ہی کام تیسرے مورچے کی ہوا بھرنے والے سپا اور لیفٹ پارٹیاں بھی کررہی ہیں۔ اگر مدنی کے نشانے پر کانگریس کے آنے سے اس کیلئے فرقہ پرستی کیلئے بھاجپا کوکوسنا بیحد مشکل ہوسکتا ہے۔ یہ ہی نہیں ابھی تک کانگریس گجرات دنگوں کی بار بار یاد دلا کر مودی کو گھیر رہی ہے۔ مولانا مدنی کے الزامات کے بعد پارٹی کیلئے ایسا کرنا کی مشکل ہوسکتا ہے۔ حالانکہ اس وقت پارٹی مدنی پر پلٹ وار کرنے کے بجائے مودی کو ہی نشانہ بناکر اس تنازعے سے بچنے کی بات کررہی ہے۔ کانگریس کے ترجمان راشد علوی کہتے ہیں کہ مودی کے وزی اعظم بننے کا سوال ہی نہیں اٹھتا تو ڈرنے ڈرانے کا سوال کہاں سے اٹھتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟