پچھلے 9 سالوں میں بچوں کی اسکول فیس 432 فیصدی بڑھی

عوام صرف آلو ،پیاز، آٹا ،دال بھات جیسی ضروری چیزوں کی مہنگائی سے پریشان نہیں ہے بلکہ ایسے کئی خرچ ہیں جنہوں نے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ9 سال میں بچوں کی اسکول فیس سب سے زیادہ 432 فیصدی تک بڑھی ہے۔ اس میعاد میں سبزی ،آٹا،دودھ، دال اور چینی سمیت تقریباً ڈیڑھ سو چیزوں کے دام دگنے سے زیادہ ہوگئے۔ اتنا ہی نہیں مٹن سمیت درجن بھر چیزوں کے بھاؤ بڑھ کر تین گنا سے زیادہ ہوگئے۔انڈیکس اور پروگرام تعمیل وزارت سے موصولہ اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ2004ء میں دیہی علاقوں میں ایک اسکولی طالبعلم کی اوسطاً فیس 48.71 روپے ہوا کرتی تھی جو اب بڑھ کر259.60 سے اوپر ہوگئی ہے۔ اس طرح اسکول فیس میں 432 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران دالیں مونگ، اوڑد، ارہر میں بھی 190,176 فیصدی کے درمیان اضافہ ہوا ہے۔ آلو کی قیمت158، پیز کی قیمت 144، ٹماٹر کی قیمت 129 فیصدی بڑھی ہے۔ اس میعادمیں ڈاکٹر کی فیس بھی 155فیصد بڑھی ہے۔ وزارت نے 260 اجناس اور خدمات کی قیمتوں سے متعلق اعدادو شمار جاری کئے ہیں۔ یہ اعدادو شمار دیش بھر کے 603 دیہات سے نیشنل سیمپل سروے آفس نے نتھی کئے ہیں۔ حالانکہ بیتے 9 برسوں میں سالانہ فی شخص آمدنی چالو قیمتوں پر24.143 روپے سے بڑھ کر 68757 روپے ہوئی۔ غور طلب ہے کہ فی شخص آمدنی قومی سطح پر ایک اوسط ہوتی ہے اس لئے یہ ضروری نہیں کہ دیہی علاقے میں لوگوں کی آمدنی میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو۔ حالانکہ منریگا جیسے پروگراموں کے تحت دیہی علاقوں میں حال کے برسوں میں غیر متوقع سے زیادہ پیسہ گیا ہے۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن کے دام نہیں بڑھے ہیں یہ ہیں پوسٹ کارڈ، انلینڈ لیٹروغیرہ۔ یہ اعدادو شمار مارچ2013 تک کے ہیں۔ سرکارنے اس سال مارچ کے بعد ریل کرایہ بڑھایا ہے جس کی تفصیل اس انڈیکس میں نہیں ہے۔ تعلیم اور صحت جیسی خدمات حالیہ برسوں میں کافی مہنگی ہوئی ہیں ہسپتالوں کا تو پوچھئے مت۔ کسی بھی اچھے پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانا پڑجائے تو بل لاکھوں میں بن جاتا ہے۔ یہی حال دواؤں کا بھی ہے۔ عام آدمی پر مہنگائی کی چوطرفہ مار پڑ رہی ہے تازہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اگست کے دوران تھوک مہنگائی شرح 6 ماہ کے اندر سب سے بلندی سطح 6.1 فیصدی پر تھی جو پچھلے سال اسی میعاد کے مقابلے اگست میں سبزیاں قریب78 فیصدی اور پیاز244فیصدی تک مہنگی ہوگئی۔ تہواری سیزن میں یہ مہنگائی اپنا رنگ ضرور دکھائے گی۔ بڑھتی مہنگائی ،گرتا روپیہ اور دھیمی اقتصادی ترقی نے مرکزی سرکار کی پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔ مختلف اسمبلیوں کے چناؤ سر پر ہیں لوک سبھا کے چناؤ بھی اب دور نہیں۔ ایک مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ تیل کمپنیوں کو سبسڈی کا بوجھ کم کرنے کے لئے پیٹرول کے دام میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو تھوک مہنگائی شرح 0.5 فیصدی تک اور بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ اگست میں دودھ کی تھوک مہنگائی شرح 5.6 فیصدی بڑھ گئی۔ اسی سال جولائی میں دودھ کی تھوک مہنگائی شرح2.3 فیصدی بڑھ گئی تھی۔ ایک سال کے اندر 10 فیصدی سے زیادہ دودھ مہنگا ہوگیا۔ اسکول فیس کے علاوہ کتابوں، کاپیوں، پین، پینسل،بستہ وغیرہ کی قیمتیں بھی بڑھی ہی ہیں۔ پتہ نہیں یہ بڑھتی مہنگائی کہاں جاکر رکے گی، رکے گی بھی یا نہیں؟
(انل نریندر)عوام صرف آلو ،پیاز، آٹا ،دال بھات جیسی ضروری چیزوں کی مہنگائی سے پریشان نہیں ہے بلکہ ایسے کئی خرچ ہیں جنہوں نے لوگوں کا جینا حرام کررکھا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ9 سال میں بچوں کی اسکول فیس سب سے زیادہ 432 فیصدی تک بڑھی ہے۔ اس میعاد میں سبزی ،آٹا،دودھ، دال اور چینی سمیت تقریباً ڈیڑھ سو چیزوں کے دام دگنے سے زیادہ ہوگئے۔ اتنا ہی نہیں مٹن سمیت درجن بھر چیزوں کے بھاؤ بڑھ کر تین گنا سے زیادہ ہوگئے۔انڈیکس اور پروگرام تعمیل وزارت سے موصولہ اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ2004ء میں دیہی علاقوں میں ایک اسکولی طالبعلم کی اوسطاً فیس 48.71 روپے ہوا کرتی تھی جو اب بڑھ کر259.60 سے اوپر ہوگئی ہے۔ اس طرح اسکول فیس میں 432 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران دالیں مونگ، اوڑد، ارہر میں بھی 190,176 فیصدی کے درمیان اضافہ ہوا ہے۔ آلو کی قیمت158، پیز کی قیمت 144، ٹماٹر کی قیمت 129 فیصدی بڑھی ہے۔ اس میعادمیں ڈاکٹر کی فیس بھی 155فیصد بڑھی ہے۔ وزارت نے 260 اجناس اور خدمات کی قیمتوں سے متعلق اعدادو شمار جاری کئے ہیں۔ یہ اعدادو شمار دیش بھر کے 603 دیہات سے نیشنل سیمپل سروے آفس نے نتھی کئے ہیں۔ حالانکہ بیتے 9 برسوں میں سالانہ فی شخص آمدنی چالو قیمتوں پر24.143 روپے سے بڑھ کر 68757 روپے ہوئی۔ غور طلب ہے کہ فی شخص آمدنی قومی سطح پر ایک اوسط ہوتی ہے اس لئے یہ ضروری نہیں کہ دیہی علاقے میں لوگوں کی آمدنی میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو۔ حالانکہ منریگا جیسے پروگراموں کے تحت دیہی علاقوں میں حال کے برسوں میں غیر متوقع سے زیادہ پیسہ گیا ہے۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن کے دام نہیں بڑھے ہیں یہ ہیں پوسٹ کارڈ، انلینڈ لیٹروغیرہ۔ یہ اعدادو شمار مارچ2013 تک کے ہیں۔ سرکارنے اس سال مارچ کے بعد ریل کرایہ بڑھایا ہے جس کی تفصیل اس انڈیکس میں نہیں ہے۔ تعلیم اور صحت جیسی خدمات حالیہ برسوں میں کافی مہنگی ہوئی ہیں ہسپتالوں کا تو پوچھئے مت۔ کسی بھی اچھے پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانا پڑجائے تو بل لاکھوں میں بن جاتا ہے۔ یہی حال دواؤں کا بھی ہے۔ عام آدمی پر مہنگائی کی چوطرفہ مار پڑ رہی ہے تازہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اگست کے دوران تھوک مہنگائی شرح 6 ماہ کے اندر سب سے بلندی سطح 6.1 فیصدی پر تھی جو پچھلے سال اسی میعاد کے مقابلے اگست میں سبزیاں قریب78 فیصدی اور پیاز244فیصدی تک مہنگی ہوگئی۔ تہواری سیزن میں یہ مہنگائی اپنا رنگ ضرور دکھائے گی۔ بڑھتی مہنگائی ،گرتا روپیہ اور دھیمی اقتصادی ترقی نے مرکزی سرکار کی پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔ مختلف اسمبلیوں کے چناؤ سر پر ہیں لوک سبھا کے چناؤ بھی اب دور نہیں۔ ایک مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ تیل کمپنیوں کو سبسڈی کا بوجھ کم کرنے کے لئے پیٹرول کے دام میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو تھوک مہنگائی شرح 0.5 فیصدی تک اور بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ اگست میں دودھ کی تھوک مہنگائی شرح 5.6 فیصدی بڑھ گئی۔ اسی سال جولائی میں دودھ کی تھوک مہنگائی شرح2.3 فیصدی بڑھ گئی تھی۔ ایک سال کے اندر 10 فیصدی سے زیادہ دودھ مہنگا ہوگیا۔ اسکول فیس کے علاوہ کتابوں، کاپیوں، پین، پینسل،بستہ وغیرہ کی قیمتیں بھی بڑھی ہی ہیں۔ پتہ نہیں یہ بڑھتی مہنگائی کہاں جاکر رکے گی، رکے گی بھی یا نہیں؟

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟