پاریکھ کا صحیح سوال،میں ملزم تو پی ایم کیوں نہیں؟

وقت وقت کی بات ہے آج سے 20-30 برس پہلے یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کسی برلا کے خلاف کیس درج ہو یا ان میں سے کسی برلا کو پوچھ تاچھ کے لئے بلایا جاسکے۔ لیکن آج برلا بھی کٹہرے میں کھڑے ہورہے ہیں اور امبانی سے بھی پوچھ تاچھ ہورہی ہے۔یہ سب کوئلہ الاٹمنٹ گھوٹالے سے متعلق ہے۔ چناوی موسم کے درمیان کوئلہ بلاک الاٹمنٹ گھوٹالے میں سی بی آئی نے مشہور صنعت کار ادتیہ برلا گروپ کے چیئرمین کمار منگلم برلا اور ان کی کمپنی ہنڈالکو انڈسٹریز لمیٹڈ کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ گھوٹالے کی اس14 ویں ایف آئی آر میں کمار منگلم کے ساتھ سابق کوئلہ سکریٹری پی ۔سی۔ پاریکھ اور کوئلہ وزارت میں کچھ گمنام حکام کو بھی ملزم بنایا گیا ہے۔ معاملہ درج کرنے کے ساتھ ہی سی بی آئی نے ادتیہ برلا گروپ کے کئی اداروں پر دستاویز اور دیگر ثبوت اکٹھا کرنے کے لئے چھاپے مارے۔ ایف آئی آر کے مطابق2005ء میں کچھ لوگوں نے ایڈمنسٹریٹو حکام کے ساتھ مل کر مجرمانہ سازش اور تالابیرا2- اور تالابیرا ۔3 کو ئلہ بلاک کے الاٹمنٹ میں جانبداری کا رویہ اپنایا۔ دراصل تالابیرا۔2 بلاک تاملناڈو سرکار کے پبلک سیکٹر ادارے نویلی لگنائٹ کو دی جانی تھی لیکن اس وقت کے کوئلہ سکریٹری پی۔سی۔ پاریکھ نے ہنڈالکو کوفائدہ پہنچایا اور اس کول بلاک کو نویلی لگنائٹ کے ساتھ شیئرکرنے کی اجازت دے دی، جس سے سرکاری خزانے کو نقصان ہوا۔ اتنی اہم شخصیتوں اور حساس اشوز پر چارج شیٹ کا فال آؤٹ ہونا فطری ہے۔ ادھر چارج شیٹ داخل ہوئی ادھر چارج شیٹ میں ملزم سابق کوئلہ سکریٹری پی ۔سی ۔ پاریکھ نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ پاریکھ نے اخبار نویسوں سے کہا اگر کوئی سازش ہوئی ہے تب اس میں مختلف لوگ شامل ہیں۔ ان میں ایک برلا بھی ہیں جنہوں نے عرضی لگائی تھی۔تب جس نے اس معاملے کو دیکھا تھا اور سفارش کی تھی ۔وزیر اعظم منموہن سنگھ اس وقت وزیر کوئلہ تھے اور انہوں نے آخری فیصلہ لیا تھا۔ وہ تیسرے سازشی ہیں۔ اس لئے اگر کوئی سازش ہوئی ہے تو ہم سب کو (وزیراعظم سمیت) ملزم بنایا جانا چاہئے۔ پاریکھ نے آگے سوال کیا کہ اگر سی بی آئی کو لگتا ہے کہ سازش ہوئی ہے تو برلا اور مجھے ہی کیوں چنا گیا، وزیر اعظم کو کیوں نہیں؟ اخبار نویسوں نے پوچھا کیا پی ایم کو سازشی نمبر ون بنایا جانا چاہئے؟اس پر پاریکھ کا کہناتھا بالکل آخری فیصلہ تو انہوں نے ہی کیا۔ اگر وہ چاہتے تو میری سفارش مسترد کرسکتے تھے۔ پاریکھ میں ہماری رائے میں بالکل صحیح سوال اٹھایا ہے۔ اگر کوئلہ بلاک کے الاٹمنٹ میں کوئی سازش ہوئی ہے تو کوئلہ وزیر کے طور پر وزیر اعظم کا نام بھی سازش کرنے والوں میں شامل کیوں نہیں ہے۔ بھلے ہی سی بی آئی یہ دعوی کررہی ہو کہ برلا اور پاریکھ کے خلاف اس کے پاس کافی اور ٹھوس ثبوت ہیں لیکن اس کی کارروائی کافی کچھ غیر متوقع نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ پہلی بات تو پاریکھ کی ساکھ ایک ایماندار افسر کی رہی ہے۔ دوسرا اس پر یقین کرنا مشکل ہورہا ہے کہ ایک بڑے صنعتی گھرانے کو سنبھالنے اور عام طور پر تنازعوں سے دور رہنے والے کمار منگلم ایک غیر مناسب اور غیر اخلاقی طریقے سے کوئلہ بلاک حاصل کرنے کی کوشش میں شامل ہیں۔ خود حکمراں کانگریس پارٹی اور یوپی اے سرکار میں اس کیس کو لیکر ایک بڑا تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ وزیر کمپنی امور سچن پائلٹ نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے سرمایہ کاروں کا بھروسہ ڈگمگا سکتا ہے۔ وہیں وزیر تجارت اور صنعت آنندشرما نے اسے افسوسناک بتایا۔ پائلٹ نے کہا کہ یہ یقینی ضروری ہے کہ اس طرح کی کارروائی ٹھوس حقائق پر منحصر ہو۔ کیونکہ پچھلے واقعات سے کاروباری ماحول متاثر ہوتا ہے وہیں صنعتی دنیا نے ایف آئی آر میں برلا کا نام آنے پر دیپک پاریکھ اور کمپنی امور ٹی ۔بی موہن داس سمیت کئی صنعتی اداروں نے کہا کہ جب تک کسی کے پاس پختہ ثبوت نہیں ہو کسی صنعتکار کو نشانہ بنان سے معیشت پر برا اثر پڑے گا۔ پورے واقعہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ کوئلہ بلاک میں نئے سرے سے الزامات کا سامنا کررہے پردھان منتری منموہن سنگھ کو اس بار اپنی پارٹی نے انہیں اکیلا چھوڑدیا ہے۔ متنازعہ آر ڈیننس پر کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کے ذریعے پی ایم کو پلائی گئی لتاڑ کا یہ نتیجہ ہے کہ اتنے بڑے الزام کے باوجود آج نہ تو سرکار کی طرف سے نہ ہی کانگریس کی طرف سے کسی بڑے لیڈر نے کھل کر ان کا ساتھ دیا ہے۔ یہاں یہ بھی بتایا ضروری ہے کہ اس کول بلاک الاٹمنٹ سے متعلق کچھ اہم فائلیں بھی غائب ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ اس معاملے سے جڑی سی بی آئی کی ابتدائی جانچ رپورٹ چوری چھپے بدلنے کی کوشش کی گئی ہے؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ کوشش کوئلہ وزارت سے کی گئی ہے۔ صاف ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ساتھ ساتھ ایک بار پھر سی بی آئی کے کام کاج کے طریقے پر سوال اٹھنا فطری ہے۔ تازہ ایف آئی آر کانگریس کے لئے مصیبت بن گئی ہے۔ اپوزیشن کو تازہ اشو ملنے سے کانگریس کے لئے مقابلہ مشکل ہوسکتا ہے۔ اترپردیش کے ایک فوڈ پارک کے سنگ بنیاد کے موقعہ پر حال ہی میں راہل گاندھی کمار منگلم برلا کے ساتھ نظرآئے تھے۔ کانگریس پارٹی کو برلا گروپ نے کروڑوں روپیہ چندہ دیا ہے۔ اس ایف آئی آر سے صرف برلا ہی نہیں بلکہ ساری صنعتی دنیا سرکار کے خلاف ہوسکتی ہے۔ کانگریس کے اندر مانا جارہا ہے کہ تازہ ایف آئی آر سے ایک طرف کرپشن کا اشو اہم بن جاتا ہے وہیں وزیر اعظم کو بچانا مشکل بھی۔ دیکھیں کانگریس پارٹی اور یوپی اےII- سرکار تازہ حملے سے کیسے نمٹتی ہے۔ یہ بھی غور کرنا ہوگا کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ ،خاص کر دہلی اسمبلی چناؤ میں تازہ واقعات کا کیا اثر پڑتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!