دہلی دیکھنے میں انتہائی خوبصورت رہنے والوں کیلئے چلینج بھری!

گزشتہ دنوں میرا ایک اسکول کا دوست شکاگو امریکہ سے دہلی آیا میں اسے ہوائی اڈے لینے گیا باہر نکلتے ہی اسنے اندراگاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ہوائی اڈا تو بیں الااقوامی معیار کا بن گیا ہے راستے میں فلائی اوور اور ٹول بریئج کی سڑکوں اور عمارتوں کی تعریف کرتے ہوئے اس نے کہا کہ دہلی کا تو نقشہ اور شکل ہی بدل گئی اور چاروں طرف ترقی ہی نظر آرہی ہے بیرونی ملک سے آنے والوں کی بات تو چھوڑیے دوسرے ملکوں سے آنے والے بھی یہی کہتے ہیں اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ شیلا دیکشت کی قیادت میں دہلی کی تصویر بدل دی لیکن اس ترقی کی وجہ سے آنے والے دہلی اسمبلی چناؤ میں کانگریس کی جیت ہوگی یہ دعوے سے نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس کی وجہ ہے بے شک باہر سے آنے والوں کو دہلی کی چوطرفہ ترقی نظر آتی ہے لیکن دہلی کی شہریوں کا شہر میں رہنا اتنہائی مشکل ہوتا جارہا ہے چاہے ہم لااینڈ آرڈر کی بات کریں چاہے ٹریفک کی بات کریں ،بجلی پانی کے بارے میں بات کریں یا مہنگائی کی بات کریں ،بچوں کی اسکولوں کی بات کریں ان سب نے دہلی کی شہریوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہےْ ۔گھوٹالے پر گھوٹالے کا آئے دن پردہ فاش ہو رہاہے زہ مثال دہلی میں راشن تقسیم کے اناج میں کروڑوں کی روپے کی کالا بازاری کو لے لیں ۔ایک نجی ٹی وی چینل آج تک نے ایک اسٹنگ آپریشن کرکے دیکھایا ہے غذائی گارنٹی اسکیم کے تحت سستا گیہوں لے کر اناج کے گودام سے نکلا ٹرک مقررہ مقام کے بجائے نجی آٹا مل پہنچ گیا ہے اس میں محکمہ خوراک کے کئی ملازم اور افسروں کے شامل ہونے کے بات کہی گئی ہے اس سے غریبوں کو ملنے والا سستا راشن نہیں مل سکا اور مرکز و ریاستی حکومت نے ضرورت مندوں کو جو سہولت دینے تھی وہ چوپٹ ہوگئی ۔یہ گھوٹالہ بھی کروڑوں روپے ہے آسمان چھوتی مہنگائی دہلی کے شہریوں کو اتنا ستا رہی ہے کہ کہیں اس کا غصہ کانگریس سرکار کو نہ جھیلنا پڑے پیاز روز مرہ کی کھانے والی دیگر سبزیوں کی قیمتوں کے سبب تھوک اور خوردہ مہنگائی شرح ں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔مہنگائی شرح پچھلے سات مہینے میں سب سے زیادہ اونچائی سطح 6.46فیصدی پر پہنچ گئی جبکہ ستمبر میں خوردہ کرنسی پوزیشن شرح 9.84درج کی گئی رسوئی گیس پیٹرول کے دام اور مہنگائی میں سالانہ 9اعشاریہ 64فیصدی اضافہ درج کیا گیا پچھلے مہپینے ستمبر میں کھانے پینے کی چیزوں کی مہنگائی تین سال میں سب سے زیادہ بڑھ کر 18.4فیصدی ہوگئی پچھلے سات مہینوں تھوک مہنگائی کا بڑھنے کا سلسلہ جاری ہے پیاز 322فیصدی سے زیادہ جبکہ سبزیاں 89فیصدی مہنگی ہوئی ہیں اس دوران آلو اور دال 13فیصدی سستے ہوئے لیکن پھلوں پر مہنگائی ہے کہ ترقی شرح گر کر 5فیصدی کے نیچے آگئی ایک سال کے اندر دہلی میں تیسری دودھ مہنگا ہوا ہے امول نے دو روپئے بڑھا دیے ہیں ۔اب دہلی میں دودھ 44روپیے لیٹر ملے گا جبکہ ٹونڈ دوسھ کی قیمت 32سے بڑھ کر 34روپے لیٹر ہوجائے گااسی طرح ڈبل؛ ٹونڈ 30روپے فی لیٹر ہوگیا۔راجدھانی میں پیاز نے پھر آنسو رلانے شروع کردئے ہیں اس وقت پیاز خوردہ بازار میں 60سے 70روپے کیلو بک رہی ہے جبکہ تھوک بازار میں 50روپے کیلو ہے ۔اس کی دلیل دی جارہی ہے کہ فائلن طوفان کے سبب فصل برباد ہونے سے غذائی سامان کے قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور تہواری سیزن اس مہنگائی کا اثر پڑنا لازمی ہے اگر ہم دہلی کی ٹریفک کی با ت کریں سڑکوں پر تیز دوڑتی گاڑیوں کے سبب ہر چوتھی سڑک پر لوگ دم توڑتے ہیں دہلی کا سڑک حادثوں میں مقام نمبر 1 ہے دہلی میں 2012میں 1822سڑک حادثوں میں 866لوگ مرے تھے پچھلے 9سالوں میں جب سے کانگریس سرکار آئی ہے 432فیصد اضافہ ہوا ہے اگر ہم دہلی میں لااینڈ آرڈ رکی بات کریں تو دہلی میں عورتوں کیلئے ان کی حفاظت کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے پچھلے سال گینگ ریپ کے بعد سے اور بھی اہم بن چکا ہے لیکن قومی راجدھانی ہونے کے سبب دہلی پولیس ریاستی سرکار کے ماتحت نہ ہونے کے سبب کوئی بھی پارٹی اس ایشو کا ٹھوس سبب نہیں رکھ سکی اور بلکہ آبرو ریزی کے واقعات بڑھے ہیں اور اب دہلی کو ریپ کیپیٹل آف انڈیا کہا جانے لگا ہے کوئی بھی دہلی کی عورت اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتی بجلی کی داموں کا اشو بھی کم اہم نہیں اسی طرح پانی کی قلت اور اس کے داموں میں اضافے نے اور اس کے بھاری بھرکم بلوں کے آنے سے دہلی کے باشندے پریشان ہیں ۔دہلی میں ٹریفک جام کے سبب لوگوں کا وقت ضائع ہوتا ہے ر اس میں 40سے 50فیصدی پیٹرول ڈیزل ضائع ہوتا ہے جو گاڑیاں روڈ پر 1لیٹر میں 15کیلو میٹر چلتی ہیں وہ جام کی وجہ سے 8 سے 10کیلو میٹر تک ہی محدود رہ جاتی ہیں دہلی میں اوسطا ساڑھے سو بسیں خراب ہوتی ہیں 2012میں راجدھانی میں 4086بچے لاپتہ ہوئے جن کا آج تک پتہ نہیں چلا بحر حال ایسے بہت سے اشو ہیں کل ملاکر دہلی دیکھنے میں تو بہت خوبصورت ہے لیکن رہنے والوں کیلئے بہت چلنج بھری ہے ۔
انل نریندر

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!