طوفان سے بچے ،بھگدڑ میں مرے!

ہمارے سامنے دو مثالیں ہیں جب ایک خدائی قہر اور خوفناک طوفان فیلن آیا اور دوسرا دکیا سے 60 کلو میٹر دور مدھیہ پردیش میں واقعہ رتن گڑھ دیوی مندر میں بھگدڑ ہوئی۔ حالانکہ قدرتی قہر طوفان فیلن کہیں زیادہ خطرناک تھا اور بھاری تباہی مچا سکتا تھا۔وہیں بطور تیاری اور قدرتی آفات روک تھام محکمے کے سبب سینکڑوں زندگیاں بچائی جاسکیں۔ اس کامیابی کا سہرہ مرکزی اور قومی قدرتی آفات مینجمنٹ یعنی این ڈی ایم اے کے ساتھ ساتھ ریاستوں کے مقامی انتظامیہ کو جاتا ہے۔ اگر مقامی انتظامیہ بروقت رتن گڑھ دیوی مندر میں چوکس ہوتی تو شاید یہ حادثہ نہ ہوتا لیکن لاپروائی کے سبب115 شردھالوؤں کی جانیں گئیں اور150 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں معصوم بچے ،عورتیں شامل ہیں۔ نوراتری کی نویں پر مدھیہ پردیش کے اس مشہور دیوی مندر میں پل ٹوٹنے کی افواہ کے بعد بھگدڑ مچنے سے 115 لوگوں کو جان گنوانی پڑی۔ مندر کے لئے راستہ سندھ ندی پر بنے پل سے ہوکر جاتا ہے۔ پل پر کافی بھیڑ جمع تھی ،تبھی کچھ لوگوں نے افواہ پھیلا دی کے پل ٹوٹنے والا ہے جس سے بھگدڑ مچ گئی۔ حالانکہ کچھ چشم دید کا کہناہے کہ کچھ لوگوں نے تو پل سے مندر تک لگی لمبی لائن کو توڑ کر آگے جانے کی کوشش کی جس پر پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا۔ اس طرح عورتیں ،بچے اور بزرگ ادھر ادھر بھاگنے لگے اور بھگدڑ مچ گئی۔ رتن گڑھ ماتا مندر کے قریب بہہ رہی سندھ ندی کے پل پر جہاں بھی نظر دوڑائے لوگوں کی لاشیں اور زخمی پڑے ہزاروں کی تعداد میں مسافروں کے جھولے بیگ اور جوتے چپل بکھرا پڑا نظر آئے گا۔ مدھیہ پردیش حکومت نے اس حادثے کی جوڈیشیل انکوائری کے احکامات دئے ہیں۔ مرنے والوں کو ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ اور سنگین طور پرزخمیوں کو 50 ہزار روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ حادثے پر کچھ ایسے سوال کھڑے ہوگئے ہیں جن کا جواب ملنا چاہئے۔ آخر پل ٹوٹنے کی افواہ کس نے اور کیوں پھیلائی؟ کیا پولیس ملازمین نے ہی یہ کہاتھا کہ پل ٹوٹ رہا ہے اور لوگوں کو وہاں روکنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی اور پولیس کو صبر و تحمل کا مظاہرہ دکھانے کے بجائے لاٹھی چارج کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ بھیڑبڑھنے پر محدود لوگوں کو الگ الگ گروپوں میں مندروں تک چھوڑا جاسکتا تھا۔ اگر تعداد کم تھی تو پولیس کو لاٹھی چارج کرنے کا حکم کس نے دیا؟ پولیس کو جبکہ یہ معلوم تھا لاٹھی چارج میں بھگدڑ مچ سکتی ہے۔ کانگریس کا الزام ہے پولیس کسی نیتا کے لئے راستہ بنانے کی کوشش کررہی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اہم شخصیت کے آنے کا پلان پہلے سے نہیں بنایا گیا اور یہ غور نہیں کیا گیا کے اہم شخصیات کو بھیڑ والے راستے سے نہ لاایا جائے۔ واقعہ کے کچھ دیر بعد متاثرہ لوگوں کو مدد تک نہیں ملی اور دیر شام تک لاشوں کا ڈھیڑ لگا رہا۔ بڑی تعداد میں جب لوگ نویں کے موقعہ پر آنے والے تھے تو وہاں فائر برگیڈ ،ایمبولنس یاچلتے پھرتے ہسپتالوں کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟نیا پل بننے کے بعد بھی لوگ سندھ ندی میں گر گئے۔ چشم دید گواہوں کے مطابق ندی میں گرے لوگوں کو ڈھونڈھا نہیں جاسکا۔ بڑی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں۔ ندی میں آخر یہ لوگ گرے کیسے؟اکتوبر2006 ء کو بھی سندھ ندی میں 50 لوگ بہہ گئے تھے۔ اس کے بعد جانچ کرائی گئی اور رپورٹ میں کچھ تجاویز پیش کی گئیں کیا ریاستی حکومت نے جوڈیشیل کمیشن کی سفارشوں کی بنیاد پر کوئی کارروائی کی۔ اسمبلی چناؤ سے ٹھیک پہلے اس حادثے کا شیو راج سنگھ چوہان کی سرکار کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟