فرقہ وارانہ فساد سیاسی فائدے کیلئے سیاسی پارٹیاں کراتی ہیں!

حالانکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ فسادات ہوتے نہیں ہیں کرائے جاتے ہیں لیکن کبھی کسی بھی سیاستداں کو یہ اقبال نامہ اچھا لگتا ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے مظفر نگر فسادات کو لیکر پچھلے بدھوار کو علیگڑھ اور رامپور کی ریلیوں میں سماجوادی پارٹی اور بھاجپا پر جم کر تنقید کی اور کہا فساد ہوتے نہیں کروائے جاتے ہیں۔ مظفر نگر میں بھی ایسا ہی ہوا ہے یہاں سیاسی طاقتوں نے محض اس لئے خون خرابہ کرایا کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ فرقہ وارانہ ٹکراؤ کے بغیر چناؤ نہیں جیت سکتے۔ عام آدمی تو یہ مانتا رہا ہے کہ فسادات سیاسی فائدے کے لئے کرائے جاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ووٹ کے لئے لوگوں کے درمیان ذات اور مذہب کا بھید بھاؤ پیدا کرتی ہیں۔ عام طور پر لوگ امتیاز کو بھول کر پیار محبت سے مل کر رہنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم مظف نگر کی بات کریں تو یہاں کبھی فرقہ وارانہ دنگا نہیں ہوا۔ 1947ء میں بھی نہیں ہوا۔ برسوں سے ہندو مسلمان بھائی چارے سے رہتے آئے ہیں لیکن سیاسی فائدے کیلئے وہاں فسادات شروع ہوئے اور انہیں روک پانے کے الزام میں سزا کے طور پر معطل چار دروغاؤں کی دلیل سننے کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ نے ان کی معطلی پر روک لگا دی۔ دروغاؤں کی طرف سے کہا جانا کی کوال گاؤں میں لڑکی چھیڑنے کے خلاف احتجاج کررہے سچن اور گورو کے قتل کے الزام میں پکڑے گئے ملزمان کو وزیر کے دباؤ میں چھوڑے جانے کے بعد وہاں فرقہ وارانہ فساد بھڑک اٹھا۔ وہاں لوگوں نے اکھلیش سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔ مظفر نگر فسادات کے بعد سپا سرکار ایکطرفہ کارروائی کے الزامات میں گھرتی جارہی ہے۔ سرکار پر دنگے کے بعد فرق�ۂ خاص کے پولیس ملازمین کے تبادلے کے الزام کے علاوہ بڑے پیمانے پر ایک فرق�ۂ خاص سے متعلق لوگوں کے اسلحہ لائسنس معطل کرنے کا بھی الزام لگ رہا ہے۔ ہائی کورٹ پہنچے اسلحہ لائسنس معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے کہ معاملے کی اگلی سماعت23 اکتوبر مقرر کی گئی ہے۔ جسٹس دلیپ گپتا نے مظفر نگر کے راجندرسنگھ نام کے ایک شخص کی عرضی پر سماعت کے بعد اکھلیش حکومت سے جوابی حلف نامہ دو ہفتے میں داخل کرنے کو کہا ہے۔ راجندر سنگھ کے وکیل انل شرما نے عدالت کو کوال کے واقعے کے بعد پیدا حالات کی تفصیل بتائی اور کہا فساد کے بعد بھیروکلاں تھانے نے 9 ستمبر کے نوٹس جاری کرکے اسلحہ کے لائسنس منسوخ کرنے کی اطلاع دی۔ اس سے 23 اکتوبر تک اپنا اسلحہ تھانے میں جمع کرنے کوکہا گیا۔ اتنا ہی نہیں اسی طرح کا نوٹس نوآباد گاؤں کے ایک ہی فرقے کے 70 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔وکیل انل شرما نے مزید دلیل پیش کی کہ آئین کی دفعہ14 کے تحت حکومت مذہب کی بنیاد پر اسلحہ لائسنس جاری یا منسوخ کرنے میں امتیاز نہیں برت سکتی۔ ادھر سپریم کورٹ نے مظفر نگر سمیت ریاست کے کئی علاقوں میں بھڑکے دنگوں کے معاملے میں وزیر اعلی اکھلیش یادو اور وزیر شہری ترقی اعظم خاں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالت نے یہ نوٹس داخل دو دیگر لوگوں کے ذریعے ہائی کورٹ کی الہ آباد اور لکھنؤ بنچ میں عرضی کو اپنے یہاں منقتل کرنے کے بعد دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پہلے سے داخل عرضیوں سمیت ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کی تین عرضیوں پر ایک ساتھ سماعت کی ہے۔ سماجی رضاکار ڈاکٹر نوتن ٹھاکرنے لکھنؤ بنچ میں مفاد عامہ کی عرضی پیش کر سی بی آئی کی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ دیگر عرضیوں میں دکھائے گئے اسٹنگ آپریشن سمیت کئی متنازعہ نکتوں کی غیر جانبدارانہ جانچ کی مانگ کی ہے۔ اترپردیش سرکار کے ذریعے جانچ کے لئے تشکیل سہائے کمیشن کے ساتھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی شامل کیاگیا ہے اور کہا گیا ہے کہ منصفانہ جانچ کرائیں۔ رپورٹ آرہی ہے کہ سپا چیف ملائم سنگھ یادو کو اب اترپردیش کے تئیں جنتا کی ناراضگی کا ڈر لگ رہا ہے۔ سنیچر کو ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے نوارن دوس پر منعقدہ پروگرام میں کہا کہ ان کے ممبران اسمبلی اور وزرا کی خامیوں کی سزا جنتا انہیں دے گی۔ ظاہر ہے یہ بات لوک سبھا چناؤ کے پیش نظر کہی ہے جو پارٹی کے لئے کافی اہم ہے۔ سپا چیف نے کہا اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو جنتا پر گہری نظر رکھی ہوگی۔ آپ کے کہنے سے سرکار اچھی نہیں ہوگی اب جنتا اچھا کہے تب سرکار اچھی مانی جائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!