دہلی کے بعد اب ممبئی ہلی گینگ ریپ سے!

16دسمبر2012ء کو دہلی کے وسنت وہار علاقے میں پیرا میڈیکل طالبہ سے بس میں ہوئی گینگ ریپ کی واردات کے بعد سخت ترین قانون بنانے کے بعدبھی یہ وحشی باز نہیں آرہے ہیں۔ وسنت وہار کیس کے واقعہ کے بعد کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ تازہ واقعہ ممبئی کا ہے۔ دیش کی اقتصادی راجدھانی اور عورتوں کے لئے محفوظ مانے جانے والی ممبئی میں جمعرات کو ایک 23 سالہ خاتون فوٹو گرافر کو پانچ درندوں نے اپنی حوس کا شکار بنایا۔ متاثرہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کام کے سلسلے میں پریل علاقے میں واقع بند پڑے مل کے کمپاؤنڈ کے فوٹو کھینچنے گئی تھی۔ وہاں پانچ ملزمان نے موقعہ پا کر متاثرہ کے ساتھی کو پتھر سے باندھ دیا اور پھر لڑکی سے آبروریزی کی۔ اس واردات نے 16 دسمبر کو دہلی میں ہوئے گینگ ریپ کی یاد تازہ کردی۔ تو لوگوں کا غصہ پھر بھڑک اٹھا۔ دیش میں سڑکوں سے لیکر پارلیمنٹ تک یہ اشو اٹھا۔ ممبئی پولیس نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے24 گھنٹے کے اندر اس معاملے کو سلجھالینے کا دعوی کیا ہے اور اس نے پانچ میں سے دو ملزمان کو پکڑ لیا ہے۔ دونوں ملزمان سمیت دیگر تین کی پہچان ہوگئی ہے۔ان کی گرفتاری کے لئے کارروائی چل رہی ہے۔ گرفتار شخص کا نام محمد عرف چاند ہے جبکہ وجے یادو، قاسم بنگالی، سلیم اور اشفاق فرار ہیں۔ جمعرات کی شام 6 بجے ورادات رونما ہوئی ۔ متاثرہ فوٹو گرافر اور اس کا ساتھی کچھ تصویریں لینے کے لئے سنسان پڑی شکتی مل میں گئے۔ وہاں پانچوں ملزم ان کے پاس آئے۔ ان میں سے ایک نے متاثرہ کے دوست سے کہا کہ کچھ دن پہلے علاقے میں ہوئے قتل میں اس کا ہاتھ ہے جب متاثرہ کے دوست نے کہا کہ وہ پہلی بار اس جگہ پر آیا ہے تو ملزم نے ایک ساتھی کو فون کیا جو فوراً وہاں پہنچ گیا اور کہنے لگا اسے بھی قتل میں فوٹو جرنلسٹ کے اس ساتھی کا ہاتھ ہونے کا شک ہورہا ہے۔ ملزمان نے متاثرہ کے دوست کو پتھر سے باندھ دیا اور لڑکی سے گینگ ریپ کیا۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے ہمارے سماج کی ذہنیت بالکل نہیں بدلی۔ سرکار نے سختی بھی دکھائی اس سے لگا تھا کے شاید اب یہ درندے ایسی حرکت کرنے سے تھوڑا باز رہیں گے لیکن کچھ نہیں بدلا۔ جس دن ممبئی میں یہ واقعہ ہوا اس دن دہلی میں اتم نگر علاقے میں نوکری کا جھانسہ دیکر ایک شادی شدہ عورت سے اجتماعی آبروریزی کا معاملہ سامنے آیا۔ اس معاملے میں گرفتار دو ملزموں کو پیشی کے بعد کورٹ نے جوڈیشیل حراست میں جیل بھیج دیا۔ ملزمان کے نام موہت عرف مونو و وکاس بتائے جاتے ہیں۔ تیسرا ملزم فرار ہے۔ دیش کی بہو بیٹیوں کے ساتھ اجتماعی بدفعلی روکنے و قصورواروں کو سزا اورمتاثرہ کو مدد دینے پر سرکار کتنی سنجیدہ ہے 16 دسمبر کے واقعہ سے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ تقریباً 8 مہینے ہو گئے ہیں اس واقعے کو ،ابھی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے پتہ نہیں فیصلہ ہوگا اور ہوگا بھی تو اس پر عمل ہوگا یا نہیں؟ امید کی جانی چاہئے کے اسی برس مقدمے کا فیصلہ ہوجائے گا اور قصوراروں کو سزا ملے گی۔ سزا کا ڈر ان وحشیوں کو روک سکے تو روکے۔ ویسے تو یہ باز آنے والے نہیں ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟